Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعرات، 3 نومبر، 2016

    کوپرنیکن اصول بمقابلہ بشری اصول

    تاریخی تناظر 


    گلیلیو کے وقت سے لے کر انقلابات کے ایک سلسلے نے ہمارے کائنات سے متعلق تصوّر اور اس میں اپنے کردار کو بالکل ہی تبدیل کر دیا۔ عہد وسطیٰ کے دوران کائنات کو ایک تاریک اور شجر ممنوعہ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ زمین ایک چھوٹی چپٹی سی سیج تھی جو اخلاقی بگاڑ اور گناہوں سے آلودہ تھی ، اس کے گرد پراسرار سماوی کرہ موجود تھا جہاں سے شگون جیسا کہ دم دار تارے بادشاہوں اور گنواروں دونوں کو ایک ہی طرح سے ڈرانے کے لئے آتے تھے۔ اور اگر ہم خدا کا شکر اور چرچ میں عبادت کرنے میں کوئی چوک کرتے تو ہمیں خود پسند کلیسا کے اراکین اور ان کی مخفی ایجنڈوں کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑتا ۔ 

    نیوٹن اور آئن سٹائن نے ہمیں ماضی کے واہمات اور باطنیت سے آزاد کروایا۔ نیوٹن نے ہمیں درست میکانکی قوانین دیئے جو ہماری زمین کے بشمول تمام سماوی اجسام کی رہنمائی کرتے تھے۔ قوانین اس قدر درست تھے کہ انسان تو صرف رٹو طوطا بن گیا تھا جو اپنے مقدر کی لکھی ہوئی سطروں کو پڑھتا ہوا نظر آتا تھا۔ آئن سٹائن نے حیات کی سیج کو ہمارے نقطہ نظر سے دیکھنے کو بالکل تبدیل کر دیا تھا۔ نہ صرف عالمگیری مکان و زمان کی تعریف کرنا ناممکن تھا بلکہ حقیقت میں تو سیج بذات خود کم زدہ تھا۔ نہ صرف سیج کو ایک کھینچی ہوئی ربڑ کی چادر سے بدل دیا گیا تھا بلکہ یہ تو پھیل بھی رہی تھی۔

    کوانٹم انقلاب نے تو ہمیں مزید عجیب دنیا کی تصویر دکھائی۔ ایک طرح نظریہ جبریت کے بت کو گرانے کا مطلب تھا کہ کٹ پتلیاں اب آزاد تھیں کہ اپنی رسیاں کاٹ کر اپنے خود کے مکالمے بول سکیں۔ خود مختاری کثیر اور غیر یقین نتائج کی قیمت پر بحال ہو گئی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اداکار ایک ہی وقت میں دو جگہ موجود ہو سکتے تھے اور وہ حاضر غائب بھی ہو سکتے تھے۔ یقین سے یہ بتانا مشکل ہو گیا تھا کہ کوئی اداکار سیج پر کہاں تھا یا کس وقت وہ موجود تھا۔

    کثیر کائنات کے تصوّر نے ہمیں ایک اور نئے فکری انقلاب سے روشناس کرایا ہے جہاں "کائنات" کا لفظ بذات خود متروک ہو گیا ہے۔ کثیر کائناتوں کے ساتھ، متوازی سیج ایک کے اوپر ایک خفیہ راستوں اور خفیہ سرنگوں سے جڑی ہوئی رکھی ہیں۔ سیج حقیقت میں دوسری سیج کا ایک نا ختم ہونے والے سلسلے کو جنم دیتی ہے۔ ہر نئی سیج پر نئے قوانین طبیعیات نمودار ہوتے ہیں۔ شاید کچھ ہی سیجوں پر حیات اور شعور کی شرائط موجود ہیں۔ آج ہم اداکار ایکٹ اوّل میں رہ رہے ہیں اس سیج کی کائناتی تحیر انگیزی کی چھان بین کی ابتداء میں ہیں۔ اگر ہم نے اپنا سیارہ آلودگی یا جنگ سے تباہ نہیں کیا تو شاید ایکٹ دوم میں ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ زمین کو چھوڑ کر ستاروں اور دوسرے آسمانی اجسام کی تلاش کر سکیں۔ نجات کی ایک ہی ممکنہ صورت ہے کہ اپنی سیج کو کسی چور دروازے سے چھوڑ دیا اور جائے اور دوبارہ سے نئی سیج پر نیا کھیل شروع کیا جائے۔


    کوپرنیکن اصول بمقابلہ بشری اصول 


    یہ بات واضح ہے کہ عہد وسطیٰ کے دینی دور سے لے کر آج کے کوانٹم طبیعیات کے اس سفر کے دوران ہمارا کردار ، ہماری کائنات میں حیثیت ہر نئی سائنسی انقلاب کے ساتھ تبدیل ہوتی رہی ہے۔ ہماری دنیا بہت تیزی کے ساتھ پھیلتی گئی ہے اور ہمیں مجبور کیا ہے کہ ہم اپنے تصوّر کو تبدیل کریں۔ جب میں اس تاریخی ترقی کو دیکھتا ہوں، تو میں کبھی دو متضاد جذبات کے ہاتھوں مغلوب ہو جاتا ہوں۔ جب میں سماوی گنبد افلاک میں موجود لامحدود تعداد میں ستاروں پر نظر ڈالتا ہوں یا زمین پر موجود دسیوں ہزار قسم کی حیات کے بارے میں سوچتا ہوں۔ ایک طرف تو میں کائنات کی وسعت کے آگے اپنے آپ کو انتہائی حقیر جانتا ہوں۔ جب وسیع کائنات کے پھیلاؤ پر نظر ڈالتے ہوئے بلیز پاسکل نے ایک مرتبہ لکھا، "اس لامحدود خلاء کی ابدی خاموشی مجھے خوف سے مار ڈالتی ہے۔" دوسری طرف میں حیات کی شاندار بوقلمونی اور اپنی حیاتیاتی وجود کی پیچیدگی کو دیکھ کر مسحور ہو جاتا ہوں۔ آج جب میں اپنے کائنات میں کردار کے سوال کو سائنسی طور پر جاننے کی کوشش کرتا ہوں تو دو ایک دوسرے کے مخالف فلسفیانہ نقطہ نظر کو طبیعیاتی سماج میں پاتا ہوں ایک کوپرنیکن کا اصول دوسرا بشری اصول ۔

    کوپرنیکن کا اصول کہتا ہے کہ کائنات میں ہماری جگہ کوئی خاص جگہ نہیں ہے۔ ( کچھ لوگ اس کو اعتدالی نظریہ بھی کہتے ہیں)۔ اب تک ہر فلکیاتی دریافت اس نقطہ نظر کی تائید کرتی ہے ۔ نہ صرف کوپرنیکس نے زمین کو کائنات کے قلب سے بے داخل کر دیا، ہبل نے تمام ملکی وے کہکشاں کو ہی کائنات کے مرکز سے نکال باہر کیا اور ہمیں ایک پھیلتی ہوئی ارب ہا کہکشاؤں والی کائنات سے روشناس کروایا۔ تاریک مادّے اور تاریک توانائی کی حالیہ دریافت نے اس بات کو ہم پر عیاں کیا کہ بھاری کیمیائی عناصر جنہوں نے ہمارے جسم کو بنایا ہے وہ کائنات کے کل مادّے اور توانائی کا صرف 0.003 فیصد ہی ہیں۔ افراطی نظریئے کے ساتھ ہم اس بات کا تصوّر کر سکتے ہیں کہ قابل مشاہدہ کائنات ایک ریت کے ذرّے جتنی ہے اور یہ ایک کہیں بڑی، چپٹی کائنات کا حصّہ ہے اور یہ کائنات مسلسل نئی کائناتوں کو جنم دے رہی ہے۔ اور اگر ایم نظریہ کامیاب ثابت ہو جاتا ہے۔ تو ہمیں اس امکان کا سامنا بھی کرنا ہوگا کہ ہمارے شناسا مکان و زمان پھیل کر گیارہ جہتوں والے ہو جائیں گے۔ نہ صرف ہمیں کائنات کے مرکز سے بے داخل کر دیا گیا بلکہ ہمیں معلوم ہوا کہ قابل مشاہدہ کائنات ایک بڑی کائنات کے معمولی حصّے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔



    اس وسعت کے احساس کے ساتھ اسٹیفن کرین کی نظم یاد آتی ہے، جس نے ایک مرتبہ ایسا لکھا تھا،

    ایک انسان کائنات سے کہتا ہے:

    "جناب! میں وجود رکھتا ہوں!"

    "بہرحال،" کائنات جواب دیتی ہے 

    "یہ حقیقت مجھ میں ذمہ داری کا احساس نہیں ڈالتی۔"



    (ڈگلس ایڈم کی سائنسی مزاحیہ کہانی ہیچ ہائیکر گائیڈ ٹو دی گلیکسی یاد کریں جس میں ایک آلہ ہوتا ہے جس کا نام مکمل ظاہری گرداب ہوتا ہے یہ اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ کسی بھی صاحب عقل انسان کو ایک جھکی پاگل میں بدل دیتا ہے۔ خانے کے اندر ایک پوری کائنات کا نقشہ ہوتا ہے جہاں پر ایک ننھا تیر ہوتا ہے اور لکھا ہوا ہوتا ہے ، "آپ یہاں ہیں۔")

    تاہم دوسری طرف ہمارے پاس ایک بشری اصول ہے جو ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ ایک معجزاتی حادثوں کا سلسلہ شروع ہوا اور اس سلسلے نے ہماری اس تین جہتی کائنات میں شعور کے پیدا ہونے کو ممکن کیا۔ ایک انتہائی تنگ معلومہ پٹی ہے جس نے ذہین حیات کو حقیقت کا روپ دیا ہے اور ہم اتفاق سے اسی پٹی میں موجود ہیں۔ پروٹون کا استحکام، ستاروں کا حجم، بھاری عناصر کا وجود، علی ہذالقیاس یہ تمام باتیں پیچیدہ حیات کی اقسام اور شعور کے لئے بہت ہی زیادہ موزوں اور متوازن لگتی ہیں۔ کوئی بھی شخص اس بارے میں تو بحث کر سکتا ہے کہ آیا یہ خوش قسمت صورتحال کسی تخلیق کی وجہ ہے یا حادثے کی، تاہم کوئی بھی اس پیچیدہ موزونیت کے بارے میں بحث نہیں کر سکتا جس کی بدولت ہمارا وجود ممکن ہوا ہے۔ 

    اسٹیفن ہاکنگ تبصرہ کرتا ہے، "بگ بینگ کے بعد اگر پھیلنے کی شرح اگر دس کھرب میں سے ایک کے بقدر بھی ہلکی ہوتی، [کائنات] اپنی حالیہ حجم پر پہنچنے سے پہلے ہی دوبارہ منہدم ہو جاتی۔۔۔۔۔بگ بینگ جیسی کسی چیز سے ہماری کائنات کے نمودار ہونے کے خلاف عدم مساوات بے اندازہ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں واضح طور پر مذہبی مضمرات موجود ہیں۔"

    ہم اکثر اس بات کا احساس کرنے میں ناکام ہوتے ہیں کہ حیات اور شعور کس قدر قیمتی ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ کوئی پانی جیسی سادی چیز کائنات میں سب سے قیمتی شئے ہے ، صرف زمین (اور شاید یوروپا، مشتری کا ایک چاند) میں مائع پانی نظام شمسی میں شاید کہکشاں کے اسی حصّے میں کسی مقدار میں موجود ہے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ انسانی دماغ نظام شمسی یا شاید قریبی ستاروں تک سب سے پیچیدہ شئے ہے جو قدرت نے بنائی ہے۔ جب ہم مردہ مریخ یا زہرہ کی صاف شفاف تصاویر کو دیکھتے ہیں تو ہم پر یہ عقدہ کھلتا ہے کہ ان کی سطح مکمل طور پر اجاڑ ویران ، روشنی بلکہ کسی بھی پیچیدہ نامیاتی حیاتیاتی کیمیا کے بغیر ہیں۔ خلائے بسیط میں انگنت جہاں حیات سے محروم موجود ہو سکتے ہیں۔ یہ بات ہمیں احساس دلاتی ہے کہ حیات کس قدر نازک ہے، اور کیا یہ معجزہ ہے کہ یہ زمین پر یہ پھلی پھولی ہے۔

    کوپرنیکن اصول اور بشری اصول ایک طرح سے ایک دوسرے کے مخالف ہیں جو ہماری کائنات کے شدید ماحول کو بند کرتے ہیں اور ہمارا کائنات میں اصل مقام سمجھنے میں مدد کرتے ہیں۔ کوپرنیکن اصول ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم کائنات کی وسعت کا سامنا کریں اور شاید کثیر کائناتوں کا بھی، بشری اصول ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ اصل میں شعور اور حیات کس قدر نایاب ہیں۔ تاہم حتمی طور پر کوپرنیکن اصول اور بشری اصول کے درمیان بحث کائنات میں ہمارے کردار کے بارے میں اس وقت تک فیصلہ نہیں کریں گے جب تک ہم اس سوال کو ایک بڑے منظر نامے یعنی کوانٹم نظریئے کے نقطہ نظر سے نہ دیکھ لیں ۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: کوپرنیکن اصول بمقابلہ بشری اصول Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top