خالق کا سوال ایک سوال اٹھاتا ہے کہ آیا سائنس خدا کے وجود کے بارے میں کچھ کہتی ہے؟ عالم دیں پال ٹیلچ نے ایک مرتبہ کہا کہ طبیعت دان صرف وہ سائنس دان ہیں جو "خدا" کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور ان کے چہرے پر نور نہیں آتا۔ حقیقت میں تو طبیعیات دان سائنس دانوں کے درمیان انسانیت کے سب سے عظیم سوال سے بھڑنے کے لئے اکیلے کھڑے ہیں کہ آیا کی کوئی عظیم صورت گری موجود ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا کوئی اس کو بنانے والا ہے؟ کون سا سچائی کا سچا راستہ ہے، دلیل یا الہام؟
اسٹرنگ نظریہ ہمیں قابل کرتا ہے کہ ہم ذیلی جوہری ذرّات کو مرتعش تاروں پر موجود موسیقی کے نوٹ کی طرح دیکھیں؛ کیمیا کے قوانین تال کی طرح ہیں جن کو کوئی بجا سکتا ہے؛ کائنات تاروں کی سمفونی (آوازوں کی موافقت یا ہم آہنگی)ہے؛ اور خدا کی حکمت کو اضافی خلاء میں بجنے والی موسیقی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر یہ تشبیہ درست ہوئی تو ہمیں ایک اگلا سوال پوچھنا ہوگا کہ آیا کوئی موسیقی کو ترتیب دینے والا ہے؟ کیا کسی نے اس نظرئیے کو بنایا ہے جو ہمیں ممکنہ ثمر آور کائناتوں کے وجود کے امکان کے بارے میں سوچنے کی اجازت دیتا ہے جس کو ہم اسٹرنگ نظرئیے میں دیکھتے ہیں؟ اگر کائنات ایک سلیقے سے بنائی ہوئی گھڑی ہے تو کیا کوئی گھڑی ساز موجود ہے؟
اس طرح سے اسٹرنگ کا نظریہ اس سوال پر کچھ روشنی ڈالتا ہے کہ آیا خدا کے پاس چناؤ کا اختیار تھا؟ جب بھی آئن سٹائن اپنے کونیاتی نظریات کو بناتا تھا وہ ہمیشہ ایک ہی سوال کرتا تھا کہ میں کس طرح سے کائنات کی تخلیق کرتا؟ وہ اس نتیجے پر پہنچا شاید خدا کے پاس کائنات کو بنانے میں زیادہ چناؤ کا اختیار نہیں تھا۔ اسٹرنگ کا نظریہ اس کی تصدیق کرتی ہوئی لگتی ہے۔ جب ہم اضافیت کو کوانٹم کے نظرئیے کے ساتھ ملاتے ہیں تو ہم ان نظریات میں الجھ جاتے ہیں جن کے اندر مہلک خامیاں موجود ہیں۔ انتشار جو ہر چیز کو اڑا کر رکھ دے اور بے قاعدگیاں جو نظریہ کے تشاکل کو خراب کر دیں ۔ صرف طاقتور تشاکل کو ڈالنے کے بعد ہی یہ انتشار اور بے قاعدگیاں ختم کی جا سکتی ہیں، اور ایم نظریہ ان میں سے سب سے زیادہ طاقتور تشاکل رکھتا ہے۔ شاید ایک اکلوتا منفرد نظریہ جو ایک نظریہ میں موجود ہماری تمام شرائط کو پورا کرتا ہے۔
آئن سٹائن جو اکثر اوقات قدیم ہستی کے بارے میں کافی لکھتا تھا ، اس سے خدا کے بارے میں سوال کیا گیا۔ اس کے خیال میں دو طرح کے دیوتا تھے۔ پہلی قسم کا دیوتا عائلی تھا وہ دیوتا جو دعاؤں کا جواب دیتا تھا، ابراہیم ؑ، اسحاقؑ، اور موسیٰ ؑ کا خدا، وہ خدا جس نے دریا کا دو لخت کر دیا تھا اور معجزے دکھاتا ہے۔ بہرحال یہ وہ خدا نہیں ہے جس پر سائنس دانوں کی اکثریت یقین رکھتی ہے۔
آئن سٹائن نے ایک مرتبہ لکھا کہ وہ اس خدا پر یقین رکھتا ہے جو " اسپینو زا کا خدا ہے جو خود کو وجود کی ترتیب وار ہم آہنگی کے ذریعہ آشکار کرتا ہے، اس خدا پر نہیں جو مقدر اور انسانوں کے عمل سے سروکار رکھے۔" اسپینو زا کا خدا اور آئن سٹائن کا ہم آہنگی کو قائم رکھنے والا خدا ، دلیل و منطق کا خدا۔ آئن سٹائن لکھتا ہے، "میں اس بات کا تصوّر نہیں کر سکتا کہ خدا ایسا ہوگا کہ جو اپنی مخلوق کو جزا اور سزا دے۔۔۔۔۔ نہ ہی میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ افراد مرنے کے بعد بھی زندہ رہیں گے۔"
(دانتے کی "دوزخ" میں جہنم کا پہلا درجہ ان نامور اور مزاج رکھنے والے لوگوں سے بھرا ہوا ہوتا تھا جنہوں نے حضرت عیسیؑ کا تعلیمات پر ٹھیک طرح سے عمل نہیں کیا تھا۔ پہلے درجہ میں دانتے کو پلاٹو اور ارسطو اور دوسرے عظیم فلسفی اور روشن خیال لوگ ملے۔ بطور طبیعیات دان ویلزک تبصرہ کرتا ہے، "ہمیں لگتا ہے کہ غالباً جدید سائنس دانوں کی خاصی اکثریت ہم اسی پہلے درجے میں پائیں گے۔") مارک ٹوئن کو بھی اسی بیان کردہ پہلے درجے میں پایا جا سکتا ہے۔ ٹوئن نے ایک مرتبہ عقیدے کو یوں بیان کیا "کسی بھی ایسی چیز پر یقین رکھنا جسے بے وقوف بھی جانتا ہے کہ وہ درست بات نہیں ہے ۔"
ذاتی طور پر خالص سائنسی نقطہ نگاہ سے میں سمجھتا ہوں کہ شاید آئن سٹائن یا اسپینوزا کے خدا سے متعلق سب سے مضبوط دلیل فلسفہ غایات سے ملتا ہے۔ اگر اسٹرنگ کا نظریہ حتمی طور پر تجربات میں بطور ہر شئے کے نظرئیے کے ثابت ہو گیا تب ہم یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ یہ مساوات آئی کہاں سے ہے۔ اگر وحدتی میدانی نظریہ سچی میں منفرد ہے جیسا کہ آئن سٹائن کو یقین ہے تب ہم پوچھ سکتے ہیں کہ یہ انفرادیت کہاں سے آئی ہے ۔طبیعیات دان جو خدا پر یقین رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ کائنات اس قدر خوبصورت اور سادہ ہے کہ اس کے حتمی قوانین کسی حادثے کا نتیجہ نہیں ہوں گے۔ کائنات پوری طرح سے اٹکل پچو یا مردہ الیکٹران اور نیوٹرینو سے بنی ہو سکتی تھی جو صاحب شعور حیات کو تو چھوڑ ہی دیں کسی بھی قسم کی حیات کو بنانے کی صلاحیت سے یکسر محروم ہوتی۔
اگر ایسا ہے جیسے کہ میں اور دوسرے طبیعیات دان یقین رکھتے ہیں تو حتمی قوانین حقیقت اس کلیہ سے بیان کئے جا سکیں گے جو ایک انچ سے زیادہ لمبا نہیں ہوگا تب سوال ہوگا یہ مساوات کہاں سے آئی ہے؟ جیسا کہ مارٹن گارڈنر نے کہا تھا، " سیب کیوں گرتا ہے؟ ثقلی قوانین کی بدولت۔ ثقلی قوانین کی بدولت کیوں؟ کیونکہ کچھ مساوات ایسی ہیں جو نظریہ اضافیت کا حصّہ ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہوگا کہ طبیعیات دان کسی دن ایک حتمی مساوات کو لکھنے کے قابل ہو جائیں گے جس سے تمام طبیعیات کے قوانین حاصل ہو سکیں گے، کوئی اب بھی پوچھ سکتا ہے، ' وہ مساوات ہی کیوں؟'"
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں