Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 9 نومبر، 2016

    جماعت اوّل کی تہذیب کا سفر



    اینٹون چیکوف کے کھیل "تین بہنوں" میں ایکٹ دوم میں کرنل ورشنن منادی دیتا ہے، " ایک یا دو صدیوں میں یا پھر ہزار برسوں میں، لوگ نئے طریقے سے رہیں گے، خوش باش طور سے۔ ہم ان کو دیکھنے کے لئے تو موجود نہیں ہوں گے - تاہم یہی وجہ ہے کہ ہم زندہ رہتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سختیاں برداشت کر رہے ہیں۔ ہم اس ماحول کو بنا رہے ہیں۔ یہی ہمارے وجود کا مقصد ہے۔ ہمارے لئے واحد خوشی یہ بات جاننا ہے کہ ہم اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔

    ذاتی طور پر کائنات کی وسعت کو دیکھ کر افسردہ ہونے کے بجائے مجھے اس خیال سے ہی سنسنی دوڑ جاتی ہے کہ نئے جہاں ہمارے آگے موجود ہیں۔ ہم اس دور میں رہ رہے ہیں جہاں ہم نے تو ابھی کائنات کی تلاش اپنے خلائی کھوجیوں اور خلائی دوربینوں اور اپنے نظریات اور مساوات کی مدد سے بس شروع ہی کی ہے۔

    میں اس بات میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ میں اس دور میں جی رہا ہوں جب ہماری دنیا ایک اس طرح کا بہادرانہ قدم اٹھانے جا رہی ہے۔ ہم شاید انسانی تاریخ کے سب سے عظیم دور یعنی جماعت اوّل کی تہذیب کے آنے والا دور اور غالباً سب سے تاریخی اور تاریخی انسانی کے خطرناک موڑ کو آتا ہوا دیکھ رہے ہیں ۔

    ماضی میں ہمارے آباؤ اجداد سخت اور بے رحم دنیا میں رہتے تھے۔ انسانی تاریخ کے زیادہ تر حصّے میں لوگ کم عمر جیتے تھے، ان کی زندگیاں وحشی تھیں اور ان کی اوسط عمر بیس برس کی تھی۔ وہ مستقل بیماری کے خوف اور مقدر کے رحم و کرم پر جیتے تھے۔ ہمارے آباؤ اجداد کی ہڈیوں کی جانچ سے معلوم ہوا ہے کہ وہ بری طرح سے ٹوٹی ہوئی ہیں شاید یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بھاری سامان اپنی روز مرہ کی زندگی میں اٹھاتے تھے؛ ان کی ہڈیوں میں ہولناک حادثوں اور بیماریوں کے نشانات بھی موجود ہیں۔ پچھلی صدی تک ہمارے دادا اور پردادا جدید صحت و صفائی کے انتظام، ضد حیوی ادویات، ہوائی جہازوں، کمپیوٹر یا دوسرے برقی آلات کے بغیر زندگی گزارتے تھے۔

    ہمارے پوتے یا پڑ پوتے شاید ایک ایسی زمین پر زندگی گزار رہے ہوں گے جہاں پر پہلی سیاروی تہذیب کا آفتاب طلوع ہو رہا ہوگا۔ اگر ہم اپنی وحشی جبلت کو اپنے آپ کو ختم کرنے سے روک سکیں تو ہمارے پوتے یا پڑ پوتے ایک ایسے عہد میں رہیں گے جہاں طلب، بھوک اور بیماری ہماری منزل کی راہ میں کبھی حائل نہیں ہوں گے۔ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہمارے پاس وہ دونوں وسائل موجود ہوں گے جو زمین پر تمام حیات کا خاتمہ کر دیں یا پھر اس کو جنت کا نمونہ بنا دیں۔

    ایک بچے کے طور پر میں اکثر اس بات پر غور کرتا تھا کہ مستقبل بعید میں زندگی گزارنا کیسے ہوگا۔ آج مجھے یقین ہے کہ اگر مجھے اس بات کا موقع دیا جائے کہ میں انسانی تاریخ کے کسی مخصوص دور میں جی سکوں تو میں اس دور کو ہی پسند کروں گا۔ ہم سب انسانی تاریخ کے سب سے زیادہ پرجوش مقام پر موجود ہیں کونیات کی سب سے عظیم دریافتوں اور اب تک کی تاریخ کی سب سے زیادہ جدید ٹیکنالوجی کو حاصل کرنے کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ 

    ہم اس تاریخی دور سے گزرنے کی تیاری کر رہے ہیں جہاں ہم تماش بین سے قدرت کے طریقوں کو قابو کرنے والا ہوں گے جہاں ہم حیات ، مادّے اور شعور کو ہنرمندی سے سنبھال سکیں گے۔ اپنی کوششو ں کے پھل کو دانائی کے ساتھ تمام تر انسانیت کی بھلائی کے لئے استعمال کرنے کی یقین دہانی کے لئے اس شاندار قوّت کے ساتھ بہرحال کچھ ذمے داریاں بھی ساتھ ہی عائد ہوتی ہیں ۔

    یہ نسل جو اس وقت زندہ ہے شاید وہ زمین کی سطح پر پھرنے والی تمام نسلوں سے اہم ہے۔ اپنی پچھلی نسلوں کے برعکس ہم نے اپنی نوع کے مستقبل کے لئے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالا ہوا ہے، چاہئے ہم جماعت اوّل کی تہذیب بننے کے لئے ابھریں یا جنگ، آلودگی اور انتشار کی کھائی میں جا گریں ۔ ہمارے لئے گئے فیصلوں کی گونج پوری صدی میں سنائی دے گی۔ ہم کس طرح سے عالمگیر جنگ کو حل کریں گے، نیوکلیائی ہتھیاروں سے عہدہ بر ہوں گے اور فرقہ وارانہ یا نسلی نزاع یا تو جماعت اوّل کی تہذیب کی بنیادیں رکھیں گی یا پھر اس کو ڈھا دیں گی۔ شاید ہماری نسل کا مقصد اور معنی اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ جماعت اوّل کی تہذیب کی طرف کا سفر آسانی کے ساتھ مکمل ہو جائے۔

    فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ یہ اس نسل کی وراثت ہے جو ابھی زندہ ہے۔ یہ ہمارا مقدر ہے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: جماعت اوّل کی تہذیب کا سفر Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top