جین اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ ہم کون ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں ہم جین
(مورثہ) کی وضاحت کرتے چلیں ۔ جین کروموسوم
(لونیہ یا لونی مادہ) کی بنیادی اکائی ہوتی
ہے جو کِسی موروثی خصوصیت کو والدین سے اولاد تَک مُنتقل کرتی ہے۔ ہم یوں بھی کہہ
سکتے ہیں کہ یہ توارث کی بنیادی اکائی ہوتی ہیں۔
ان میں سے ہر ایک میں پروٹین بنانے کے لئے رمز بند ہدایت
کا جوڑا موجود ہوتا ہے۔ انسان میں لگ بھگ 20,500 جین ہوتی ہیں، جن کی لمبائی چند
سو سے لے کر 20 لاکھ سے زائد بنیادی جوڑوں کی صورت میں ہوتی ہے۔ یہ ہمارے فعلیات (فزیالوجی
- جاندار مادّے کے مجموعی وظائف)کے تمام پہلوؤں کو متاثر کرتی ہیں ،یہ ہمیں وہ رمز مہیا کرتی ہیں جو ہماری طبیعی شکل و صورت، ہمارے خلیات میں
واقع ہونے والے حیاتیاتی کیمیائی رد عمل کا تعین کرتے ہیں ، بلکہ، کچھ ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ ہماری
شخصیت کا بھی تعین کرتی ہیں۔
ہر فرد میں ہر جین کی دو نقول ہوتی ہیں – ایک ماں کی طرف سے
جبکہ دوسری باپ کی طرف سے وراثت میں ملتی ہے ۔ جمعیت کے اندر ہر جین کی کئی اللیز(ہر
جین کی دو یا دو سے زیادہ متبادل اقسام جو
تقلیب کی وجہ سے ظاہر ہوتی ہیں اور کروموسوم پر ایک ہی جگہ پر ) موجود ہوتی ہیں - یعنی کہ سلسلے میں خفیف رد و بدل کے
ساتھ ایک ہی رمز کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ یہ اللیز ایک ہی جیسے افعال انجام دیتی
ہیں، تاہم یہی وہ لطیف فرق ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو منفرد بناتا ہے۔
ہمارے ہر خلیے کے اندر (سوائے سرخ خون کے خلیات کے) مرکزہ
ہوتا ہے، مرکزے میں ہماری جینیاتی اطلاعات
یعنی ڈی آکسی ریبو نیوکلک ایسڈ (ڈی این اے) موجود ہوتے ہیں: ۔ ڈی این اے ایک چار
حرفی رمز ہوتا ہے ۔یہ اساس سے بنا ہوتا ہے: ایڈینین (A)، گوانین (G)، سائٹوسین (C) اور تھائیمین (T)۔ جیسا کہ سالماتی حیاتیات دان فرانسس کرک نے
ایک مرتبہ کہا، "ڈی این اے، آر این اے کو بناتا ہے، آر این اے پروٹین کو اور
پروٹین ہمیں بناتے ہیں۔" ہماری جین کے مرکزے کے اندر کئی ہزار 23 جوڑوں پر مشتمل
کروموسوم ایک گروہ کی صورت میں محفوظ ہوتے ہیں ، لہٰذا جب
خلیہ کو ایک خاص جین کو استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، تو یہ سلسلہ کی ایک عارضی
نقل کو ریبونیوکلک ایسڈ (آر این اے) کی صورت میں بتاتا ہے۔ اس نقل میں وہ تمام
اطلاعات موجود ہوتی ہیں جو پروٹین یعنی انسانی جسم کی بنیادی اینٹوں کو بنانے کے لئے
درکار ہوتی ہیں۔
انسانی لونیت منصوبہ (ہیومن جینوم پروجیکٹ) کا مقصد پورے
انسانی لونی مادے کی نقشہ سازی کرنا ہے؛
یہ نقشہ واقعی میں انسان کو تخلیق کرنے کا خاکہ ہوگا۔ ہمارے جینیاتی رمز کے اندر مخفی
اطلاعات کا استعمال کرکے، سائنس دان ان جینز کی شناخت کرنے کے قابل ہوئے جو کئی
بیماریوں کا سبب بنتی ہیں۔ انسانی آبادی میں عام پائی جانے والی جینیاتی تغیر کی
سرگرمیوں کا حساب لگا کر، محققین الزئمر سے لے کر سینے کے سرطان جیسی اثر انداز
ہونے والی بیماریوں سے منسلک 1،800 سے زائد جینز کی شناخت کرنے کے قابل ہو گئے
ہیں۔ پیچیدہ امراض جیسا کہ دل کی بیماری پر اثر انداز ہونے والے بنیادی جینیاتی اثرات کو ابھی مکمل
طور پر سمجھنا باقی ہے ، تاہم تحقیق کے لئے دستیاب لونی مادہ جینیاتی خطرے کے
عوامل کی شناخت کے کام کو کافی آسان کر دے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے، انسانی لونیت منصوبے کی بدولت یہ
معلوم ہوا کہ پہلے سے لگائے گئے
اندازوں کے برعکس ہمارے پاس بہت ہی کم جینز ہیں؛ پروٹین بنانے والے ہمارے لونی
مادے کے رموز کے لئے وقف تو بس صرف دو فیصد ہی ہیں ۔ باقی ماندہ ڈی این اے کو 'غیر-رمزی' کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہ - بجائے جینز پر مشتمل ہونے کے - دوسرے افعال
انجام دیتا ہے۔ انسانی جینز کی اکثریت انٹرون کہلانے والے غیر-رمزی حلقے ہوتے ہیں، اور
جینز کے درمیان انٹرجینک ڈی این اے موجود ہوتے
ہیں ۔ ان کا ایک مجوزہ فعل یہ ہے کہ یہ سلسلے اہم جینیاتی اطلاعات کو بدلنے سے
محفوظ رکھنے کے لئے بطور بفر (رکاوٹ)کے
کام کرتے ہیں۔ دوسرے غیر-رمزی ڈی این اے سوئچز کے طور پر کام کرتے ہیں، یعنی یہ مناسب وقت پر جین کے اخراج کو قابو کرنے
کے لئے خلیات میں جینز کو کھولنے اور بند کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
جینیاتی تقلیب تمام جانداروں میں تنوع کا ماخذ ہیں۔ زیادہ
تر جینیاتی تبدیلی اس وقت ہوتی ہے جب ڈی این اے کی نقل بنتی ہےاور جب خلیات تقسیم
ہونے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ ڈی این اے کی نقل بنانے والی سالماتی مشینری خطا کی پتلی
ہے، اور اکثر غلطیاں کرتی ہے، جس کا نتیجہ ڈی این اے کے سلسلے میں تبدیلی کی صورت
میں نکلتا ہے۔ یہ اتنا سادہ بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ حادثاتی طور پر ایک اساس کو
دوسری سے (جیسا کہ A کو G سے) بدل دے، یا کافی بڑی غلطی جیسا کہ اساس کا اضافہ یا کمی
بھی ہو سکتی ہے۔ خلیات کے پاس وقوع پذیر ہونے والی غلطیوں کو مرمت کرنے کی مشینری
ہوتی ہے، بلکہ اگر اس نے کوئی بڑی غلطی کی ہو تو وہ خلیہ کو مار بھی دیتے ہیں،
تاہم اس تمام تر انتظام کے باوجود کچھ غلطیاں وقوع پذیر ہو ہی جاتی ہیں۔
آپ اپنی پوری زندگی میں اپنے خلیات میں ہونے والی کچھ
تبدیلی حاصل کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر تو بالکل بے ضرر ہوتی ہیں، یا تو ڈی این
اے کے غیر-رمزی حلقے میں واقع ہوتی ہیں، یا جین کو معمولی سا تبدیل کرتی ہیں کہ
پروٹین پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ بہرحال کچھ تبدیلیاں بیماریوں کا سبب بنتی ہیں۔
اگر تبدیلی نطفے اور بیضے کے خلیات میں متعارف ہو گئی تب وہ اگلی نسل کو منتقل ہو سکتی ہے۔ بہرحال، تمام
تبدیلیاں بری نہیں ہوتیں، اور ڈی این اے کے سلسلے میں یہ اٹکل بچو طریقے سے متعارف
کروانے والی تبدیلیوں کا عمل حیاتیاتی ٹیک فراہم کرتا ہے جو نظریہ ارتقاء کی حمایت
کرتا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ آسانی سے مشاہدہ جانوروں میں کیا جا سکتا ہے۔ فلفل زدہ
کیڑے (پپرڈ موتھ ) کو مثال کے طور پر لے لیں۔ صنعتی انقلاب سے پہلے ان پتنگوں کی
اکثریت کے سفید پر تھے، جس سے وہ ہلکے رنگ کے درختوں اور کائی نما گھاس میں چھپنے
کے قابل بناتے تھے۔ بہرحال، ایک اقلیت میں منقلب جین تھے، جس کی وجہ سے ان کے پروں
کا رنگ کالا ہو گیا؛ اس کالے رنگ نے ان کو
شکاریوں کے لئے آسان ہدف بنا کر ان کی تعداد کو کم کر دیا۔ جب کارخانوں نے درختوں
کو کالک سے ڈھکنا شروع کیا، تب ہلکے رنگ کے پتنگوں نے نئے سیاہ ماحول میں اپنے آپ
کو چھپانے کی جدوجہد کی، جبکہ کالے پتنگوں
کو پھلنے پھولنے کا موقع مل گیا۔ کالے
پتنگے کافی طویل عرصے تک باقی رہے، یوں وہ
اپنے اس تغیر کو اپنی نسل میں منتقل کرنے کے قابل ہوئے اور انہوں نے جین پول کو تبدیل کر دیا۔
اس چیز کا مشاہدہ کرنا آسان ہے کہ ایسی جینیاتی تبدیلی جیسے کہ فلفل زدہ
پتنگے میں واقع ہوئی تھی کس طرح سے ایک نوع کو فائدہ دے سکتی ہے، تاہم جینیاتی
بیماریوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ان میں سے بھی کچھ ہمارے فائدے کے لئے کام کر سکتی ہیں۔ ایک اچھی مثال سکل سیل انیمیا
- ایک جینیاتی خرابی جو افریقی آبادی میں کافی عام - ہے۔
ایک واحد نیوکلیوٹائیڈ تقلیب ہیموگلوبن - وہ پروٹین جو سرخ خون کے خلیات میں
آکسیجن کو باندھتا ہے – کو خراب طرح سے باندھ دیتا ہے۔ ہیموگلوبن اپنی مناسب صورت اختیار کرنے کے بجائے
ایک ساتھ جمع ہو جاتا ہے اور سرخ خون کے خلیات کی صورت بگاڑنے کا سبب بنتا ہے۔ اس
کے بعد اس کو تنگ رگوں کے اندر سے نکلنے
میں مسئلہ ہوتا ہے اور ان میں سے اکثر
خراب یا تباہ ہو جاتے ہیں۔ بہرحال، یہ جینیاتی تبدیلی، آبادی میں اس لئے
قائم رہی ہے کیونکہ اس کا ملیریا کے خلاف حفاظتی اثر ہوتا ہے۔ ملیریا کا طفیلی
اپنی زندگی کا کچھ حصہ سرخ خون کے خلیات کے اندر گزارتا ہے اور، جب سکل سیل پھٹتا
ہے، تو یہ طفیلئے کو نسل بڑھانے سے روک دیتا ہے۔ سکل سیل جین اور صحت مند
ہیموگلوبن جین کی ایک نقل رکھنے والے
افراد میں سکل سیل انیمیا کی چند علامات ہوتی ہیں، تاہم یہ ملیریا سے بھی محفوظ
ہوتے ہیں، جس سے ان کو جین کو اگلی نسل میں منتقل کرنے کی اجازت ملتی ہے۔
جینیات ایک تیزی سے ترقی کرتا ہوا میدان ہے اور ڈی این اے
کے افعال کے بارے میں مزید اطلاعات ہر دور میں دریافت ہو رہی ہیں۔ اب ہمیں معلوم
ہے کہ ماحولیاتی اثرات ڈی این اے کے خلیہ
میں بند ہونے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، جس سے کچھ جینز کی رسائی اور پروٹین کو خارج کرنے
والے نمونوں کو تبدیل کرنے پر پابندی لگتی ہے۔ بر تولیدیات ( یعنی
وہ عِلم کہ جس میں معلوم کیا جاتا ہے کہ ایک بارور بیضے سے کِس طرح مُختلف قِسموں کے
خلیے پیدا ہوتے ہیں) کے نام سے جانی گئی، یہ تبدیلیاں اصل میں بنیادی ڈی این اے کے
سلسلے کو تبدیل نہیں کرتی، بلکہ اس بات کو منضبط کرتی ہیں کہ اس کی رسائی کس طرح
سے ہوتی ہے اور خلیہ کیسے استعمال کرتا ہے۔ بر تولیدیات تبدیلیاں ایک خلیہ سے اس
کی اگلی نسل کو منتقل ہوتی ہیں، اور اس طرح سے ایک اضافی
نظام مہیا کرتا ہے جس کے ذریعہ جینیاتی اطلاعات نسلوں تک تبدیل ہو سکتی ہیں۔
انسانی لونی مادہ منصوبہ یعنی پورے انسانی جینیاتی رمز کے
سلسلہ کی نقشہ سازی کی طرف اٹھنے والے قدم کا آغاز 1990ء میں ہوا اور یہ 2003ء میں
مکمل ہوا۔ 3.3 ارب اساسی جوڑوں کے سلسلے کو لگ بھگ 150,000 اساسی جوڑوں کی لمبائی
میں توڑا گیا اور ہر ایک کے سلسلے کی شناخت کی گئی۔ ان کو بعد میں جوڑ کر لونی
مادے پر موجود اطلاعات کی نقشہ سازی کے
لئے یہ تعین کرنے کے لئے استعمال کیا گیا کہ ہر ایک پر کون سی اور کس ترتیب سے جین
پائی جاتی ہے۔ لونی مادے کا نقشہ (دائیں) ایک انسانی لونی مادے کا موازنہ دوسرے جانداروں سے کرتا ہے؛ رنگ وہ 'حرارتی نقشہ' ہیں جو اس جگہ کا بتاتے ہیں جہاں جینیاتی اطلاعات ارتقاء کے ذریعہ باقی رہی
ہیں (جتنا زیادہ ٹوٹا ہوا نمونہ ہوگا، اتنا زیادہ ہی جینیاتی رمز میں فرق ہوگا)۔
فرینزک سائنس دان مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کی
شناخت کے لئے ڈی این اے کے نشانات استعمال کر سکتے ہیں۔ افراد کے درمیان لونی مادے
کا صرف 0.1 فیصد مختلف ہوتا ہے، لہٰذا پورے ڈی این اے کے سلسلے کو دیکھنے کے بجائے سائنس دان ڈی این اے کے ان 13 حصوں کو دیکھتے ہیں جن میں لوگوں کے درمیان تغیر پایا جاتا ہے
تاکہ 'ڈی این اے کے نقش ' کو بنا سکیں۔ ان حصوں میں سے ہر ایک میں دو سے 13
نیوکلیوٹائیڈ دہرائے ہوئے نمونوں کی صورت میں
سینکڑوں اساسی لمبائی پر مشتمل ہوتے ہیں –
یہ لمبائی مختلف افراد کے درمیان مختلف
ہوتی ہے۔ ڈی این اے کے چھوٹے ٹکڑوں - جن کا حوالہ کھوجی کے طور پر دیا جاتا ہے -
کا استعمال ان دہرائے گئے نمونوں کی شناخت کے لئے کیا جاتا ہے اور ان میں سے ہر
ایک کی طوالت کا تعین پولیمیرس زنجیری (پی سی آر) عمل کہلانے والی ایک تیکنیک سے کیا
جاتا ہے۔ دو لوگوں کے 13-حصوں کا پروفائل بعینہ ایک جیسے ہونے کے امکان کے بارے
میں ایک ارب میں ایک یا اس سے بھی کم کا سمجھا جاتا ہے، لہٰذا اگر تمام 13 حصے
ملتے ہوئے لگتے ہیں تب سائنس دان کافی حد تک پراعتماد ہوتے ہیں کہ یہ جرم کے جائے
وقوعہ پر موجود انسان کے ڈی این اے سے
ملتے ہیں۔
یہ ایک عام غلط فہمی ہے کہ ہم تمام خصوصیات اپنے والدین سے
وراثت میں حاصل کرتے ہیں - یعنی کہ "آپ کی آنکھیں بالکل آپ کے والد جیسی
ہیں۔" اصل میں وراثت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتی ہے - جسمانی خصوصیات پیدا کرنے کے لئے کئی جینز ایک ساتھ مل کر کام کرتی ہیں؛ یہاں تک کہ صرف
آنکھ کو 'نیلے'، 'بھورے' یا 'سبز' رنگ دینے کے لئے کوئی ایک جین اس کی رنگت کا تعین نہیں کرتی۔ والدین سے حاصل کردہ دونوں جینز
کے امتزاج ہماری خصوصیات کا مرکب پیدا کرتے ہیں۔ بہرحال کچھ مثالیں واحد جینز کی
بھی ہیں جو اپنے آپ میں واضح جسمانی صفت کا تعین کرتی ہیں۔ ان کو مینڈلین خصائص سے
جانا جاتا ہے، اس کا نام سائنس دان گریگور مینڈل کے اعزاز میں رکھا جنہوں نے 1800ء
کے عشرے میں مٹر کے پودے کے جینیاتی خصائص
پر تحقیق کی۔ ان میں سے ایک خاصیت برصیت - میلانن بنانے والے پروٹین میں ہونے والے
نقص کی وجہ سے جلد، بالوں، اور آنکھوں میں رنگ دار مادوں کی غیر موجودگی - ہوتی
ہے۔
سرطان صرف ایک یا دو جینیاتی تقلیب کا نتیجہ نہیں ہوتا - اصل میں رسولی بننے کے لئے غلطیوں کا ایک پورا سلسلہ درکار ہوتا ہے۔ خلیات میں 'مرض رسولی' اور' انسداد رسولی' جینز موجود ہوتی ہیں، جن کا صحت مندانہ فعل خلئے کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ اس کو کب تقسیم ہونا ہے اور کب نہیں۔ اگر ان کو نقصان پہنچتا ہے، تب خلیہ اپنی خلئے کی تقسیم کے پروگرام کو بند نہیں کر سکتا اور یہ اپنی نقول بناتا ہی چلا جائے گا۔ ہر مرتبہ جب خلیہ تقسیم ہوتا ہے تب ایک خطرہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ڈی این اے کی نقل کرتے ہوئے غلطی کرے گا، اور بتدریج خلیات زیادہ سے زیادہ غلطیاں کرتے ہیں، یوں تغیر اتنا زیادہ جمع ہو جاتا ہے کہ مہلک سرطان کے آگے بڑھنے کے لئے رسولی کو بننے کی اجازت دے دیتا ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں