شاید آئن سٹائن کو جدید علم کائنات کے 'باپ 'کی جگہ اس کا 'دادا' کہنا زیادہ مناسب ہے۔ اس نے راستے کا تعین کیا، میدان سجایا اور کھیل شروع ہو گیا۔ تاہم یہ دوسرے تھے جنہوں نے کھیل آغاز ہونے کے بعد اس سمت میں دوڑ لگائی جہاں آئن سٹائن نے پہلی مرتبہ عندیہ دیا تھا۔ 1917ء کے بعد سے کائنات کے تمام ریاضیاتی نمونوں میں پھیلاؤ شامل تھا یہاں تک کہ ہبل اور ہماسن سے پہلے بھی واضح طور پر اصل کائنات کے پھیلاؤ کا معلوم ہو گیا تھا۔
یہ نئے نمونے آئن سٹائن کی ساکن کائنات کے بعد فوراً ولیم ڈی سٹر سے آنے لگے جو وہ ولندیزی تھا جس نے ایڈنگٹن کو عمومی نظریہ اضافیت کے بارے میں خبر دی تھی۔1915ء تک جب آئن سٹائن کا نیا نظریہ لیڈن میں پہنچا تو اس وقت تک ڈی سٹر پہلے ہی سے تجربہ کار اور بزرگ فلکیات دان بن چکا تھا۔ وہ 1872ء میں پیدا ہوا اور اس نے تعلیم گروننجن یونیورسٹی اور کیپ ٹاؤن میں واقع رائل رصدگاہ سے حاصل کی۔ اس کو 1901ء میں پی ایچ ڈی کی سند ملی اور 1908ء تک وہ لیڈن یونیورسٹی میں نظری فلکیات کے پروفیسر تعینات ہو گیا تھا۔ بعد میں وہ لیڈن میں رصدگاہ کا منتظم بن گیا اور اس کی موت 1934ء میں نمونیے میں مبتلا ہونے سے ہوئی۔
ڈی سٹر |
پروفیسر ڈی سٹر ان چند فلکیات دانوں میں سے ایک تھا جس نے خصوصی نظریہ اضافیت کے مضمرات کو اپنے مہارت رکھنے والے شعبے میں استعمال کرنے کا سوچا۔ خصوصی نظریہ اضافیت کے نظریے کو زیادہ تر ریاضی دانوں کی دلچسپی کا حامل سمجھا جاتا تھا اور اس کے شائع ہونے کے بعد پہلے عشرے تک اس کا کوئی عملی اطلاق نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اور ممکنہ طور پر آئن سٹائن کے بعد یہ پہلا شخص تھا جس نے عمومی اضافیت کا اطلاق کیا، اپنی خوش قسمتی کی بدولت یہ ان معدودے چند لوگوں میں شامل تھا جس نے آئن سٹائن کے نئے کام کی خبر کو سنا تھا۔
جب آئن سٹائن نے اس وقت کی مروجہ کائنات (ساکن کائنات )کے نظریئے کی تفصیل اپنے پیش کئے جانے والے عمومی نظریہ اضافیت میں تلاش کی یعنی اصل میں وہ ایک توصیف مساوات کا واحد منفرد حل تلاش کرنا چاہتا تھا تو اس کا ساکن نمونہ کونیاتی مستقل کے ساتھ اس میں پورا بیٹھتا ہوا نظر آتا تھا۔ تاہم 1917ء میں ڈی سٹر نے لندن میں رائل ایسٹرونامیکل سوسائٹی میں ایک مقالہ بھیجا جہاں پر اس کو سوسائٹی کے معتمد آرتھر ایڈنگٹن نے بہت ہی دلچسپی سے پڑھا، اس نے بتایا کہ مساوات کا ایک اور حل بھی موجود ہے ایک ایسا حل جو کائنات کا ایک مختلف نمونہ بتاتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ دونوں حل حقیقی دنیا کو پیش نہیں کرتے تھے۔ اب ہم جانتے ہیں کہ دونوں میں سے کوئی بھی اصل دنیا کو پیش نہیں کرتا تھا اور یہ کوئی مسئلے کی بات نہیں تھی۔ تاہم اس وقت یہ کچھ ایسی بات تھی جس سے آئن سٹائن کا نظریہ اڑ جاتا تھا کیونکہ یہ کہا جا سکتا تھا کہ اگر نظریہ کائنات کے مختلف چناؤ کو پیش کرے جو تمام کے تمام بنیادی مساوات سے میل بھی کھائیں تو وہ ہمیں اگر کائنات کے بارے میں کچھ بتائے بھی تو وہ حقیقی کائنات کے بارے میں نہیں ہوگا۔ یہ استدلال بمشکل اس وقت قائم رہ سکتا ہے اگر ایک مرتبہ کائنات کے پھیلاؤ کو سمجھا جا سکے اور فلکیات دانوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ آئن سٹائن اصل میں اس پیش گوئی کو ہبل کے سرخ منتقلی اور فاصلے کی نسبت کے اعلان کے دس برس پہلے سے ہی کر رہا تھا۔
ڈی سٹر کی کائنات آئن سٹائن کی طرح ریاضیاتی طور پر ساکن تھی (اور آئن سٹائن کی طرح اس میں کائناتی مستقل شامل تھا)۔بہرحال آئن سٹائن کے برعکس اس میں مادّہ تھا ہی نہیں - یہ ایک مکمل خالی کائنات کا ریاضیاتی نمونہ تھا۔ ایک 'ساکن' کائنات میں یہ سمجھنا کافی مشکل ہے کہ مکمل خالی کائنات کیسی ہو گی، کیونکہ اس میں کچھ بھی ایسا موجود نہیں ہوگا جس کو نشان مان کر یا حوالہ دے کر حرکت کی پیمائش کی جا سکے۔ اور جب نظریوں نے کوشش کی کہ مادّہ کے چند ہم قدر ریاضیاتی قطرے ڈی سٹر کی کائنات میں ڈال دیں تو انہوں نے ایک حیرت انگیز چیز پائی - مادّے کے یہ قطرے، آزمائشی ذرّات فوری طور پر ایک دوسرے سے دور بھاگتے ہیں۔ مزید براں جب انہوں نے حساب لگایا کہ ایک آزمائشی ذرّہ دوسرے آزمائشی ذرّے سے کیسا لگے گا تو ریاضی دانوں نے سرخ منتقلی کو ان ذرّات کے درمیان فاصلے کی نسبت کے تعلق سے پایا۔ ڈی سٹر کی کائنات صرف اس لئے ساکن لگتی تھی کیونکہ یہ خالی تھی، ایک ایسی کائنات میں جس میں تھوڑا سے مادّہ موجود ہو، چند کہکشائیں ادھر ادھر خلاء میں منتشر ہوں، تو فلکیات دان ویسی ہی سرخ منتقلی اور فاصلے کا تعلق دیکھیں گے جیسا کہ ہبل اور ہماسن نے 1920ء کی دہائی کے اواخر میں پایا تھا۔ بہت بعد میں ایڈنگٹن نے پہلی دو اضافیانہ کونیات کے فرق کا خلاصہ کیا: آئن سٹائن کی کائنات میں مادّہ تھا تاہم کوئی حرکت نہیں تھی؛ ڈی سٹر کی کائنات میں حرکت تو تھی تاہم مادّہ نہیں تھا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں