وہ 1894ء میں پیدا ہوئے اور بطور سول انجنیئر کے تربیت حاصل کی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اس نے بیلجین فوج میں بطور توپ خانے کے افسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ جنگ کے بعد اس نے لووین یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور 1920ء میں مدرسے میں داخل ہونے سے پہلے سند فضیلت حاصل کی اور 1923ء میں رومن کیتھولک راہب بنا۔ اس کے بعد اس نے ایک برس کیمبرج میں لگایا جہاں اس نے ایڈنگٹن کے ساتھ کام کیا اور لووین میں واپس آنے سے پہلے ایک برس ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ہارورڈ اور ایم آئی ٹی میں دیا، وہ یہاں 1927ء میں فلکیات کا پروفیسر تعینات ہوا جہاں اس نے اپنی باقی ماندہ زندگی گزار دی۔ وہ 1966ء میں وفات پا گیا، اپنے طویل سرگزشت کے دوران لیمیترے نے اپنے کونیات سے متعلق تصورات کو بنانا جاری رکھا اور وہ اس وقت تک زندہ رہا جب تک اس میں سے اکثر علم کائنات میں شامل نہیں ہو گئے۔ان میں سے سب سے زیادہ اہم خیال بگ بینگ کا بذات خود ہے اگرچہ اس نے اس کو یہ نام نہیں دیا تھا.لیمیترے کی مساوات بنیادی طور پر وہی حل پیش کرتی ہے جو فرائیڈ مین کو ملے تھے ہرچند کہ اس نے اپنی پوری زندگی میں کائناتی مستقل کو ترجیح دی جس کو آئن سٹائن نے بھی 1930ء کے عشرے میں ترک کر دیا تھا۔تاہم فرائیڈ مین بلکہ حقیقت میں تو اس سے پہلے کسی اور کے برعکس لیمیترے نے اس سوال کا سامنا کیا کہ یہ مساوات کائنات کے ماخذ کے بارے میں کیا بتاتی ہیں۔
فرائیڈ مین کے برعکس لیمیترے واضح طور پر اس وقت کہکشاؤں کی سرخ منتقلی کے مشاہدات کے بارے میں کچھ جانتا تھا۔1927ء میں اپنے مضمون میں اس نے اندازہ لگالیا تھا کہ کہکشائیں شاید 'آزمائشی ذرّات' دے سکتی ہیں جس سے کائنات کے پھیلاؤ کی پیمائش کی جا سکتی ہے اور اس نے بغیر کسی حوالے کے سرخ منتقلی فاصلے کی نسبت میں ایک راست متناسب مستقل قدر دی (جو بعد میں ہبل کے مستقل سے جانی گئی) جو بعد میں تھوڑے عرصے بعد ہبل کی شائع کردہ اس قدر سے بہت ہی قریب تھی جیسا کہ جدید ماہرین تکوینیات اس بارے میں کہتے ہیں،' ان دونوں کے درمیان کسی قسم کا رابطہ ضرور رہا ہوگا۔'لیمیترے نے دونوں باتیں دیکھیں کہ مشاہدات اور نظریہ اضافیت کیا کہتے ہیں۔
اگر کہکشائیں آج ایک دوسرے سے کافی دور ہیں اور دور ہو رہی ہیں تو اس کا لازمی مطلب ہے کہ وہ ماضی میں آپس میں کافی قریب رہی ہوں گی۔اگر ہم ماضی میں کافی دور تک دیکھ سکیں تو ہو سکتا ہے کہ ان کہکشاؤں کے درمیان کوئی خالی خلاء موجود نہیں ہو گی۔اس سے کچھ پہلے ایک ایسا وقت لازمی موجود ہونا چاہئے جب ستاروں کے درمیان کوئی خالی جگہ موجود نہیں ہو گی اور اس سے پہلے ایک وقت ہوگا جب جوہروں یا ان کے مرکزوں جو جوہروں کے قلب میں موجود ہوتے ہیں ان کے درمیان کوئی خالی جگہ موجود نہیں ہو گی۔یہ اس قدر دور کی بات تھی جہاں تک لیمیترے کا جرت مند تخیل اس کو لے جا سکتا تھا۔ اس نے ایک ایسے وقت کا تصور کیا جب کائنات کے تمام اجزاء ایک ایسے کرے میں بند تھے جو ہمارے سورج سے تیس گنا زیادہ بڑا تھا جس کو اس نے 'قدیمی جوہر' کہا۔یہ جوہر بعد میں باہر کی طرف پھٹا اور ان ٹکڑوں میں ٹوٹ گیا جو بعد میں جوہر ستارے اور کہکشائیں بنے جن کو ہم آج جانتے ہیں جس میں کہکشائیں کائنات کے پھیلاؤ کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور ہو رہی تھیں۔اس عمل کو اس سے ملایا جا سکتا ہے جس میں ایک غیر مستحکم، تابکار جوہری مرکزہ خود بخور ٹوٹ کر ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے جو اپنے دوسرے راستوں پر چلے جاتے ہیں - نیوکلیائی انشقاق جوہری بم کی قوت کا سرچشمہ۔اس سادہ خیال کو بنا کر 1930ء کے عشرے سے کافی حد تک تبدیل کر دیا گیا ہے۔تاہم جدید علم کائنات نے اس خیال کے قلب کو باقی رکھا ہے جس کو سب سے پہلے لیمیترے نے تجویز کیا تھا یعنی کہ ہماری کائنات ایک فوق کثیف حالت سے پیدا ہوئی جس نے ہر اس چیز کو پھیلتی ہوئی کائنات میں بنایا جس کو ہم دیکھ سکتے ہیں۔ ہبل اور ہماسن کے مشاہدات جس نے ہمیں پھیلتی ہوئی کائنات کے بارے میں بتایا اور لیمیترے کے قدیمی جوہر کے تصور انگریزی میں 1930ء کے عشرے کی ابتداء میں شائع ہوئے اور جدید علم کائنات نے اس سے جنم لے کر دوڑ لگا دی۔
اگر کہکشائیں آج ایک دوسرے سے کافی دور ہیں اور دور ہو رہی ہیں تو اس کا لازمی مطلب ہے کہ وہ ماضی میں آپس میں کافی قریب رہی ہوں گی۔اگر ہم ماضی میں کافی دور تک دیکھ سکیں تو ہو سکتا ہے کہ ان کہکشاؤں کے درمیان کوئی خالی خلاء موجود نہیں ہو گی۔اس سے کچھ پہلے ایک ایسا وقت لازمی موجود ہونا چاہئے جب ستاروں کے درمیان کوئی خالی جگہ موجود نہیں ہو گی اور اس سے پہلے ایک وقت ہوگا جب جوہروں یا ان کے مرکزوں جو جوہروں کے قلب میں موجود ہوتے ہیں ان کے درمیان کوئی خالی جگہ موجود نہیں ہو گی۔یہ اس قدر دور کی بات تھی جہاں تک لیمیترے کا جرت مند تخیل اس کو لے جا سکتا تھا۔ اس نے ایک ایسے وقت کا تصور کیا جب کائنات کے تمام اجزاء ایک ایسے کرے میں بند تھے جو ہمارے سورج سے تیس گنا زیادہ بڑا تھا جس کو اس نے 'قدیمی جوہر' کہا۔یہ جوہر بعد میں باہر کی طرف پھٹا اور ان ٹکڑوں میں ٹوٹ گیا جو بعد میں جوہر ستارے اور کہکشائیں بنے جن کو ہم آج جانتے ہیں جس میں کہکشائیں کائنات کے پھیلاؤ کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور ہو رہی تھیں۔اس عمل کو اس سے ملایا جا سکتا ہے جس میں ایک غیر مستحکم، تابکار جوہری مرکزہ خود بخور ٹوٹ کر ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے جو اپنے دوسرے راستوں پر چلے جاتے ہیں - نیوکلیائی انشقاق جوہری بم کی قوت کا سرچشمہ۔اس سادہ خیال کو بنا کر 1930ء کے عشرے سے کافی حد تک تبدیل کر دیا گیا ہے۔تاہم جدید علم کائنات نے اس خیال کے قلب کو باقی رکھا ہے جس کو سب سے پہلے لیمیترے نے تجویز کیا تھا یعنی کہ ہماری کائنات ایک فوق کثیف حالت سے پیدا ہوئی جس نے ہر اس چیز کو پھیلتی ہوئی کائنات میں بنایا جس کو ہم دیکھ سکتے ہیں۔ ہبل اور ہماسن کے مشاہدات جس نے ہمیں پھیلتی ہوئی کائنات کے بارے میں بتایا اور لیمیترے کے قدیمی جوہر کے تصور انگریزی میں 1930ء کے عشرے کی ابتداء میں شائع ہوئے اور جدید علم کائنات نے اس سے جنم لے کر دوڑ لگا دی۔
بلاشبہ 1920ء میں دوسرے بانیان بھی موجود تھے جنہوں نے اضافیانہ علم کائنات میں ہونے والی پیش رفت میں اپنا حصّہ ڈالا۔ امریکی ہوورڈ روبرٹسن ایک ریاضی دان تھا جس نے ڈی سٹر کے کام کو آگے بڑھایا اور کونیات کی ریاضیاتی بنیادوں میں اہم حصّہ ڈالا اور لامحالہ اس قابل ہے کہ اس کا ذکر کیا جائے۔ اپنے انگریزی رفیق آرتھر واکر کے ساتھ مل کر اس نے 1935ء میں ریاضیاتی طور پر متجانس اور یکساں مکان و زمان کو بیان کیا جو رابرٹسن واکر طریقہ کہلایا جو کائنات کو یکساں خم کھائی ہوئی خلاء سے بیان کرتا ہے جس میں ایک کائناتی وقت ہوتا ہے جو تمام مشاہدین کے لئے ایک جیسا ہوتا ہے جو کائنات کے پھیلاؤ کے ساتھ حرکت کرتا ہے۔ اس طرح کی مثالی کائناتیں یعنی رابرٹسن واکر کے نمونوں پر آج خاصی بات ہوتی ہے۔ تاہم اہم پیش رفت دس برسوں یا اس سے کچھ زیادہ کے دوران چار لوگوں کی جانب سے ہوئی یعنی سلائیفر، ہبل اور ہماسن وہ ثبوت جمع کر رہے تھے جو کائنات کے پھیلاؤ کو ظاہر کرتی۔
یہ ' بابائے کونیات' آئن سٹائن، ڈی سٹر، فرائیڈ مین اور لیمیترے تھے جن کے ساتھ غالباً ایڈنگٹن سب سے زیادہ وہ خیر خواہ باپ تھا جس نے بلوغت کی طرف اٹھنے والے پہلے نوزائیدہ قدم کی مدد کی تھی۔1930ء کی دہائی کے شروع میں نظریہ و مشاہدہ حیرت انگیز طور پر ایک دوسرے کے قریب اس نکتے پر آ گئے جہاں وہ بگ بینگ کی سمت کی جانب اشارہ کرتے تھے۔ جارج گیمو جو فرائیڈ مین کا سابقہ شاگرد تھا اس نے علم کائنات کا ایک نئے نظریہ پر کام کرکے اس کو مکمل کرنے میں مزید ایک دہائی لی۔ اسی دوران مختلف متبادل نمونے زیادہ مکمل طور پر بنا لئے گئے۔ جنہوں نے اپنے ساتھ کچھ عجیب و غریب تغیرات چھوڑے مختلف اوقات میں انفرادی عالم تکوینیات کے مساوات کے حل - 1920ء میں فرائیڈ مین اور لیمیترے کے آشکار ہوئے حل - تین اہم درجات میں بٹ گئے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں