Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 29 مارچ، 2017

    کائنات کی عمر


    ایک وجہ کہ آیا کیوں نیا کونیاتی نمونہ سائنسی دنیا میں اپنی جگہ بنانے میں مکمل طور پر ناکام ہو گیا ، وقت کا مسئلہ تھا جس کی سب سے بہتر تشریح اس وقت ہبل اور ہماسن کے حاصل کردہ دستیاب سرخ منتقلی کے اعداد و شمار سے کی گئی تھی۔ سرخ منتقلی ہمیں بتاتی ہے کہ کتنی جلدی کہکشائیں ایک مخصوص فاصلے ایک دوسرے سے دور ہونے میں لیتیں ہیں۔ اگر ہم سادہ ترین قیاس لیں کہ کائنات جب سے بگ بینگ کے واقعہ میں ظہور پذیر ہوئی ہے اس وقت سے ایک ہی شرح سے پھیل رہی ہے تو اگر آپ چاہئیں تو بگ بینگ سے لے کر اب تک گزرنے والے وقت - یعنی کہ 'کائنات کی عمر' کا حساب لگانا بہت ہی آسان ہے۔ 1930ء میں جب فلکیات دانوں نے ایسا کیا تو وہ پریشان ہو گئے۔ دور جانے کی سمتی رفتار ہبل کے مستقل H کے برابر تھی جس کو کہکشاؤں کے درمیان فاصلے سے ضرب دیا تھا۔ اگر پھیلاؤ ہمیشہ پھیلاؤ کے وقت سے ایک ہی شرح سے تھی - اس وقت سے جب دو کہکشائیں ایک دوسرے کو چھو رہی تھیں - وہ صرف 1/Hتھی۔ ہبل کے مستقل کی قدر کا استعمال کرکے جو ہبل نے خود سے اخذ کی تھی انہیں لگا کہ کائنات کی عمر صرف دو ارب برس کی ہے۔

    خاکہ 5.3 پھیلتا ہوا مکان و زمان ایک طرح سے کھینچتے ہوئے ربڑ کا ٹکڑا ہے۔ کہکشائیں A، B اور C اپنے درمیان موجود خلاء میں سفر نہیں کرتی ہیں۔ تاہم جب خلاء A اور B کے درمیان پھیل کر دگنا ہو جاتی ہے، تو دوسری تمام کہکشاؤں کے جوڑے کے درمیان فاصلہ بھی دوگنا ہو جاتا ہے بشمول A اور C کے۔ کائنات میں موجود ہر کہکشاں کے نقطہ نظر سے دوسری تمام کہکشائیں اس سے اس شرح سے دور ہو رہی ہیں جو اس کے فاصلے سے راست متناسب ہے۔ مثال کے طور پر کیونکہ C، A اور B کے فاصلے کی نسبت دو گنا دور ہے، لہٰذا جب تمام فاصلوں کو دوگنا کیا جائے گا (جب شرح کی قدر دوگنا ہو جاتی ہے) تو ایسا لگتا ہے کہ جتنا A سے تیزی سے دور B جا رہی ہے C اس سے 'دور' دوگنا جا رہی ہے۔ 

    یہ بہت ہی شرمندگی کی بات تھی کیونکہ پہلے ہی سے اس بات کے اچھے ثبوت موجود تھے کہ زمین و ستارے (بشمول ہمارا سورج) اس سے کہیں زیادہ عمر کے تھے۔ اگلے  بیس برسوں کے دوران جھگڑا اور بڑھ گیا کیونکہ مختلف تیکنیکوں کے استعمال سے واضح طور پر اس کا اشارہ ملا کہ کائنات میں زیادہ تر دیکھی جانے والی چیزوں کی عمر خود 'کائنات کی عمر' کے اس سادے تخمینے سے کہیں زیادہ ہے۔ ارضیاتی ثبوت اور تابکاری کی پیمائش اور زمین ( اور حال ہی میں چاند) اور شہاب ثاقب سے حاصل کردہ نمونوں میں تابکار جوہروں کی باقیات ایک ایسے نکتے کی طرف عندیہ دے رہی ہیں جو کم از کم چار ارب برس کی ہے، اور ممکنہ طور پر نظام شمسی کی 4.6 ارب برس کی ہے؛ 1930کی دہائی میں نیوکلیائی طبیعیات کو سمجھنے کے لئے فلکیات دانوں (ایڈنگٹن جن میں سب سے نمایاں تھا) نے اس پر کام کرنا شروع کر دیا کہ آیا کیا چیز سورج کو اتنے عرصے سے گرم رکھے ہوئے ہے اور انہوں نے انبساط کیا کہ کئی ستارے اور کہکشائیں جن کو ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں صرف چار ارب برس پرانی نہیں بلکہ 10 ارب یا اس سے بھی زیادہ عمر کی ہیں۔ 

    مشکل کی طرف ایک راستہ یہ بھی تھا کہ کائناتی نمونے کو مزید پیچیدہ کر دیا جائے جس میں ایک ایسی جگہ مل جائے جہاں ہر کوئی عمر رسیدہ ہوسکے۔ بہرحال مساوات میں ایسا کچھ نہیں تھا جو یہ کہتا کہ بگ بینگ کے بعد سے کائنات ایک ہی شرح سے پھیلتی رہی ہے۔ لیمیترے نے موضوع کے اس تغیر پر اپنا جھکاؤ رکھا جو قدیمی جوہر سے شروع ہوا تاہم جس میں جو کائناتی مستقل شامل تھا وہ آئن سٹائن کے ساکن نمونے سے زیادہ بڑا تھا۔ اس طرح کی کائنات شروع میں کافی تیزی سے پھیلتی اس کے بعد سست ہوتی اور بعد میں لگ بھگ ساکن ہو جاتی جہاں وہ اس وقت تک لٹکتی رہتی جب تک پھیلاؤ دوبارہ شروع نہیں ہو جاتا۔ مستقل کی قدر کو احتیاط کے ساتھ منتخب کرکے لیمیترے کا نمونہ اتنے لمبے عرصے کے لئے قائم رہ سکتا تھا جتنا عرصہ آپ اسے نیم ساکن حالت میں رکھنا چاہئیں یہ پس و پیش ستاروں اور کہکشاؤں کو بننے اور ارتقاء پذیر ہونے کے لئے کافی وقت دیتی تھی۔

    ایڈنگٹن کے پاس ایک دوسرا حل تھا۔ اس نے قدیمی جوہر اور بگ بینگ کے تصور کو 'یکلخت بدصورت' کہا؛ اور اس جانب اشارہ کیا کہ شاید کائنات وقت کے آغاز (اس سے جو بھی مطلب نکلے) سے ہی ساکن حالت میں موجود ہے تاوقتیکہ کچھ گڑبڑ نے چند ارب برسوں پہلے پھیلاؤ کو شروع کیا۔ اس طرح کے چند تصورات اپنے محرک کے علاوہ چسپاں تھے۔ زیادہ تر فلکیات دان اس کو مصنوعی طور پر مجبور کرکے غیر قدرتی طور ڈھالتے ہیں جیسا کہ آئن سٹائن نے اصل میں اپنے کائناتی مستقل کو زبردستی گھسا کر ساکن کائنات کی تصویر حاصل کی تھی۔ اور ایک مرتبہ پھر یہ ثابت ہو گیا کہ یہ کائنات کی وہ تصویر تھی جس کے بارے میں فلکیات دان سمجھتے تھے کہ وہ غلط ہے صرف کونیاتی مساوات کا سادہ نسخہ ہی نہیں ہے۔

    اگر کائنات واقعی 10 ارب برس یا اس سے زیادہ پرانی ہے تو اس کا مطلب یہ کہ ہبل کے مستقل کی تسلیم شدہ قدر کافی زیادہ ہو گی۔ مثال کے طور پر کیونکہ کائنات کی عمر اگر 1/H کے مستقل کو آدھا کر دیا جائے تو کائنات کی حساب لگائی عمر دوگنا ہو جائے گی۔ اور ابتدائی 1950ء کے عشرے میں کونیاتی وقت کے پیمانے پر بہت ہی ڈرامائی  تبدیلی  ہوئی تھی۔

    ہبل کے مستقل کو سرخ منتقلی کی پیمائش اور دور دراز کہکشاؤں کے فاصلے سے اخذ کیا گیا تھا۔ سرخ منتقلی کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا تاہم کائنات کے پیمانے کا فاصلہ بہت ہی لرزاں بنیاد پر تھا ان چند پیمائشوں پر جو براہ راست مثلثیاتی طریقوں سے حاصل کی گئی تھی جس نے چند قیقاوسیوں کے فاصلے کو دیا تھا جن کا استعمال کرکے ان کو کائناتی فاصلے کا نشان مان لیا گیا تھا۔ جرمن نژاد فلکیات دان ہیل جو 1940ء میں لاس انجیلس میں مقیم تھا اس کی چھوڑی ہوئی بڑی دوربینوں کی مدد اور امریکہ کی دوسری جنگ عظیم میں شمولیت کی وجہ سے ہماری ملکی وے سے دور تمام فاصلاتی پیمانے ڈرامائی طور پر بڑھ گئے تھے (اور ان کے ساتھ ہی کائنات کی عمر کا تخمینہ بھی)۔

    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: کائنات کی عمر Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top