والٹر بیڈ 1893ء میں جرمنی میں واقع شروتنگاسن میں پیدا ہوا۔ وہ ایک اسکول کے معلم کا بیٹا تھا اور تدریسی نظام میں کام کیا اور گوٹنجن یونیورسٹی سے 1919ء میں پی ایچ ڈی حاصل کرکے نمودار ہوا۔1920ء کے عشرے کے دوران اس دہائی میں جب نظریے اور مشاہدے دونوں نے اس کائنات کی اصل ماہیت کو ظاہر کرنا شروع کیا جس میں ہم رہتے ہیں۔ بیڈ برجیڈورف رصدگاہ میں کام کر رہا تھا جو ہیمبرگ یونیورسٹی کا حصّہ تھا۔ تاہم 1931ء میں جرمنی کی بدلتی سیاسی صورتحال میں بیڈ اپنے دوسرے کئی ہم عصروں کی طرح ریاست ہائے متحدہ امریکہ چلا گیا جہاں اس نے ماؤنٹ ولسن اور پلومر رصدگاہوں میں بیس برس کام کیا اور 1958ء میں واپس جرمنی پلٹ گیا۔ اس کا انتقال 1960ء میں گوٹنجن میں ہوا۔ کیلی فورنیا میں اپنے مختصر قیام کے بیچ میں بیڈ نے اپنی زندگی کی چھوٹی خلاف توقع امیدوں کا سامنا کیا۔ بطور جرمن نسل کے جب یو ایس جنگ میں شامل ہوا تو اس کو جنگ میں کی جانے والی براہ راست کوششوں میں دخل دینے والے شخص کے طور پر نہیں گردانا گیا جبکہ اس کے زیادہ تر رفقائے کار فوجی تحقیق میں شامل کئے گئے اس کو کم و بیش ا س وقت کی سب سے بڑی دوربین 100 انچ تک الگ کرکے لامحدود رسائی مل گئی۔1943ء میں لاس اینجلس میں جنگ کے زمانے کی پابندیوں میں کسی اور کے پاس اس آلات کو کھولنے کا وقت نہیں تھا بیڈ نے دوربین سے اس کی استطاعت کی آخری حد تک کام لیا وہ تصاویر لیں جس نے اینڈرومیڈا کہکشاں کے اندرونی حصّے میں ستاروں کو انفرادی روشنی کے نقطوں کی صورت میں دکھایا جبکہ ہبل ان کو صرف مدھم دھند کے طور پر دیکھ پایا تھا۔ مشاہدے نے بیڈ کو بتایا کہ ہماری پڑوسی کہکشاں میں دو بہت ہی مختلف قسم کے ستارے موجود ہیں۔ پہلی قسم کو اس نے نسل اوّل کہا جو نوجوان ستارے تھے ان میں سے زیادہ تر گرم اور نیلے تھے جو مرغولہ نما بازو میں پائے گئے تھے۔ دوسری قسم جو کہکشاں کے مرکزی حصّے اور ہالے کےعالمگیری جھرمٹوں میں پائے گئے وہ عمر رسیدہ اور بحیثیت مجموعی ٹھنڈے اور سرخ تھے۔ اس نے اسے نسل دوئم کہا۔ اب ہم جانتے ہیں کہ یہ عمومی طور پر پایا جانے والا نمونہ ہے جو تمام مرغولہ نما کہکشاؤں بشمول ہماری کہکشاں میں پائے جاتے ہیں۔ نسل اوّل کے ستارے نوجوان جبکہ نسل دوئم کے ستارے عمر رسیدہ تھے۔ اور ان دونوں نسلوں کے درمیان دوسرے اہم فرق بھی موجود تھے۔
جب لاس اینجلس میں جنگ بندی ہو گئی اور اس کے رفیق جنگ میں خدمات کو ختم کرکے واپس پہنچے بیڈ نے اس کام کو جاری رکھا کیونکہ 1948ء تک 200 انچ کی دوربین (5 میٹر) کام کر رہی تھی۔ اس سے دیکھنے میں جو معیار میں کمی ہو رہی تھی اس کا ازالہ اس کا بڑا حجم کر دیتا تھا۔ جلد ہی بیڈ نے دیکھا کہ اینڈرومیڈا کہکشاں میں ہر نسل کے ستاروں کا اپنی قسم کا قیقاؤسی متغیر ہے۔ دونوں نسل اول کے متغیر اور نسل دوئم کے متغیروں کی روشن اور دورانیہ میں بہتر قائم تعلق موجود تھا - تاہم ان دونوں کے دورانیہ روشن کے تعلقات ایک دوسرے سے الگ تھے۔ ہبل نے جو دورانیہ روشن کے تعلق کا استعمال کیا تھا وہ نسل دوئم قیقاؤسیوں کے لئے درست تھا جیسے کہ ہماری کہکشاں کے ہالے میں موجود ہیں۔ تاہم ان کا اطلاق اینڈرومیڈا کہکشاں کے دوسرے گرم اور روشن نیلے نسل اول کے قیقاؤسیوں پر کیا گیا تھا، اس لاعلمی کی وجہ سے کہ ان ستاروں میں مختلف دورانیہ روشن تعلق ہوتا ہے۔ نسل اول کے قیقاؤسی نسل دوئم کے اپنے ساتھیوں سے زیادہ روشن تھے (جس کی وجہ سے ہبل نے ان تمام کو ایک جیسا سمجھا) اور جب بیڈ نے اینڈرومیڈا کہکشاں کا دوبارہ فاصلہ درست دورانیہ روشن تعلق سے لگایا تو وہ ہبل کے 800,000 برس کے بجائے بیس لاکھ نوری برس کا نکلا۔ اینڈرومیڈا کہکشاں اس سے کہیں زیادہ روشن اور دور تھی جتنا ہبل نے سمجھا تھا۔
کیونکہ اینڈرومیڈا کہکشاں کا فاصلہ کائنات کے پیمانے کے ہبل کے تخمینے کے لئے ایک اہم قدم تھا، ایک ہی ہلے میں ہر بیرونی کہکشاں کا فاصلہ دوگنا ہو گیا اور ہبل مستقل پچھلی نکلی ہوئی قدر سے آدھے سے بھی کم رہ گیا۔ اگر وہ اس سے کہیں زیادہ دور تھے جتنا کہ پہلے سمجھا جاتا تھا تو ملکی وے کہکشاں سے دور کہکشائیں لازمی طور پر پہلے سے حساب سے زیادہ بڑی ہوں گی تاکہ وہ زمین پر موجود دوربینوں کی مدد سے بڑی نظر آ سکیں۔ حقیقت میں ان کو تقریباً ہماری اپنی کہکشاں کے حجم جتنا ہونا چاہئے تھے - ان میں سے کچھ زیادہ بڑی ہیں۔ بجائے کائنات میں ہماری کہکشاں دیوہیکل نظر آتی اب ایسا ظاہر ہو رہا تھا کہ اوسطاً اس کا حجم دوسری کہکشاؤں کے جیسا تھا۔ اخبار کی شہ سرخیوں کو لکھنے والوں کے لئے بیڈ کے نتائج کے اعلان نے ایک چٹکلہ ہاتھ میں دے دیا تھا جس میں 'کائنات کا حجم' 'دوگنا' ہو گیا تھا۔ تاہم اس کی ماہرین تکوینیات کے لئے اہمیت کہیں زیادہ تھی جس میں کائنات کی عمر کا حساب دوگنا دو ارب سے پانچ ارب برس کا ہو گیا تھا۔ کم از کم اب یعنی کہ 1950ء کی دہائی کی ابتداء میں ایسا لگتا تھا کہ کائنات زمین اور نظام شمسی سے عمر میں بڑی تھی۔
آنے والے تیس برسوں میں فاصلے کے پیمانے کا تخمینہ اور کائنات کی عمر جیسے جیسے مشاہدات ہوتے رہے ویسے ویسے لگ بھگ مسلسل بہتر ہوتی رہی۔ بیڈ کا اصل تخمینہ خود سے واضح طور پر کم عمر کی طرف ثابت کرتا ہے۔200 انچ کی دوربین کے ساتھ مسلسل کام سے معلوم ہوا کہ کائنات 20 ارب برس تک عمر کی ہو سکتی ہے یہ کام خاص طور ایلن سینڈیج جو ایک امریکی فلکیات دان تھا جو ہیل رصدگاہ میں 1952ء میں ایک ٹیم میں شامل ہوا۔ ان تمام تخمینہ جات میں اب بھی غیر یقینی کی صورتحال موجود تھی - فاصلے کی نازک زنجیر کی یاد دہائی جس نے ایک عام کہکشاں کے پیمائش کے رابطے کو کائنات کے دور کے حصّوں سے ملا دیا تھا۔ تاہم اگر کچھ تھے بھی تو آج چند ماہرین فلکیات ایسے ہیں جو بیگ بینگ کے وقت سے لے کر اب تک کائنات کی عمر کے تخمینے کے بارے 13 سے 20 ارب برس کے درمیان بحث کر سکتے ہیں- اس حد کے اندر اب بھی اختلاف کی جگہ موجود ہے۔ کچھ ثبوت بتاتے ہیں کہ معلوم عمر رسیدہ ترین کچھ ستارے 20 ارب برس پرانے ہیں تاہم کچھ کائنات کی حرکیات کی تشریح سے کائنات کی عمر کے بارے میں 15 ارب یا اس سے کم کی عمر کا اشارہ ملتا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھیں گے اختلاف کائنات کے پھیلاؤ کے حتمی مقدر کے فیصلے کے بارے میں کوشش کرنے کے لئے بہت اہم ہے۔ تاہم یہ چیز بگ بینگ کی تلاش کے لئے کچھ زیادہ بے ربط تھی۔1930ء میں کائنات کی قیاس کردہ عمر بگ بینگ کے نمونے سے سیدھی جا ٹکراتی تھی؛ آج صرف اختلاف اس عمر کو اور بہتر طور پر جاننے کے لئے رہ گیا ہے۔ بڑی حد تک مشاہدات اور ہبل مستقل سے لگائے گئے حسابات نمونہ کائنات کی سادی ترین اقسام کے اندر ہی ہیں جس کو فرائیڈ مین-لیمیترے مساوات سے بنایا جا سکتا ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں