ہماری کائنات پھیل رہی ہے اور حال کی نسبت ماضی میں کافی کثیف تھی۔ یہ بات اب ثابت ہو چکی ہے نا صرف دور دراز کی کہکشاؤں کی سرخ منتقلی کو پھیلاؤ کے اثر سے بیان کیا جا سکتا ہے بلکہ بہت زیادہ سرخ منتقلی والی ان ریڈیائی کہکشاؤں کی تعداد کو بھی گن کر ان کا مقابلہ اتنی ہی خلاء میں پائی جانے والی کم سرخ منتقلی کی کہکشاؤں سے کرکر کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ روشنی خلاء میں سے سفر کرتے ہوئے ہمارے پاس پہنچنے میں وقت لیتی ہے ہم کائنات (جن کی زیادہ سرخ منتقلی ہے) کے دور دراز کے حصّوں کو ان کے ماضی میں دیکھتے ہیں۔ اگر سرخ منتقلی اس قدر ہو کہ روشنی کو سفر کرتے ہوئے 5 ارب برس لگ جائیں تو درحقیقت ہم وہ کہکشائیں دیکھ رہے ہوتے ہیں جہاں سے روشنی 5 ارب برس پہلے چلی تھی۔ لہٰذا براہ راست ثبوت ہے کہ کائنات پھیل بھی رہی ہے اور بہت بلند کثیف حالت سے نکلی ہے - سادہ ساکن حالت کا کونیاتی نمونہ خارج کر دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں ان تمام سادہ منہدم ہوتے ہوئے نمونوں کو بھی رد کرنا ہوگا جن کی مساوات اجازت دیتی ہے۔ ممکنہ طور پر صرف وہ نمونے اصل کائنات سے متعلق ہو سکتے ہیں جن میں کم از کم پھیلاؤ کا مرحلہ موجود ہو۔ یہ اب بھی کچھ عجیب نمونوں کے لئے جگہ چھوڑتی ہے جس میں نمونہ کائنات اپنی زندگی بہت ہی کم کثافت کی حالت سے شروع کرتی ہے، بہت عرصے تک سکڑتی ہے آہستہ ہوتی ہے اور پھر واپس ایک مرتبہ پھیلتی ہے۔ جیسا کہ ہم اگلے باب میں دیکھیں گے کیونکہ وہ کائنات جس کو ہم جانتے ہیں اس کے بارے میں بہت ہی اچھا ثبوت موجود ہے کہ اس کی شروعات بہت ہی کثیف اور بہت ہی گرم حالت سے ہوئی لہٰذا میں اس قسم کے اجنبی تصورات کو بھی نظر انداز کر دوں گا۔(بلاشبہ اگر موضوع کی یہ مخصوص قسم اس قدر سکڑ جائے کہ وہ ایک ایسی حالت تک پہنچ جائے جو دوبارہ پھیلانے سے پہلے بہت ہی زیادہ درجہ حرارت اور کثافت تک جا پہنچ جائے تب بھی یہ تمام انسانی مشاہدات کے نقطہ نظر سے بگ بینگ نظریہ ہوگا)۔
بہت ہی کثیف اور بہت ہی گرم حالت جس میں کائنات پیدا ہوئی ہے وہ عام طور پر بگ بینگ کہلاتا ہے۔ فریڈ ہوئیل وہ شخص لگتا ہے جس نے 1950ء میں ایک شائع سائنسی مقالہ میں اس اصطلاح کو کونیات میں متعارف کروایا۔ کئی فلکیات دان اس اصطلاح کو پسند نہیں کرتے کیونکہ ایک طرح سے یہ گمراہ کن ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ خالی خلاء کے درمیان ایک دھماکہ ہوا تھا جس طرح سے ایک بڑا بم یا ایک بڑا نیوکلیائی بم پھٹتا ہے۔ تاہم جب خلاء خود پھیلاؤ کا حصّہ ہو اور مادّہ پھیلتی ہوئی خلاء کے ساتھ چلے تو بم کی مثال ٹھیک نہیں لگتی۔ یہاں تک کہ جب کائنات بہت زیادہ کثیف تھی یہ بہت ہموار تھی۔ دباؤ میں کوئی فرق نہیں تھا جو پھیلاؤ پر زور لگا رہا تھا اور نہ کوئی صوتی امواج تھیں جس سے 'دھماکہ' قابل سماعت ہو۔ پھیلاؤ ایک ہموار واقعہ تھا جو آج بھی جاری ہے۔ تاہم یہ تخلص سیدھی طرح سے حقیقت کا نوحہ کناں بن گیا اور اب ہم اس بگ بینگ کے نام کے ساتھ ہی جڑ گئے ہیں، اور میں ہوا کے دوش کے خلاف نہیں چلوں گا۔
کائنات کی ممکنہ اقسام کا انحصار مکان و زمان کے خم پر ہوتا ہے۔ مثبت خم بند سطح کے برابر کرہ کی طرح دے سکتا ہے تاہم مثبت خم کے ساتھ بھی سطح اس طرح سے بند نہیں ہو سکتی یہ لامتناہی طور پر پھیل سکتی ہے۔ شاید اس کو خطوط کی صورت میں ایک جہتی اجسام سے سمجھانا آسان ہے۔ خط خود پر آکر بند ہو سکتی ہے جیسا کہ دائرے میں ہوتا ہے لہٰذا اس کا ایک حقیقی حجم دائرے کا گھیر ہوتا ہے۔ یا یہ کھلی ہوئی بھی ہو سکتی ہے جس طرح قطع زائد ہوتا ہے جو ہمیشہ کسی بھی جھکے ہوئے رخ پر پھیلتی رہی گی جس سے اس کو ایک منفرد ساخت مل جائے گی۔ ہم جس کائنات میں رہتے ہیں وہ بند ہو سکتی ہے دائرے (یا کرے) کی صورت اور محدود حد میں۔ یا کھلی ہوئی بھی ہو سکتی ہے جس طرح سے قطع زائد یا وسیع قطع زائد پیالہ جو لامحدود حد تک کھینچا ہوا ہو اور جس میں لامتناہی مقدار مادّہ کی موجود ہو۔ خم کی مقدار کا فیصلہ اور آیا کہ کائنات کھلی ہوئی ہے یا بند ہے اس کا انحصار کائنات میں مادّے کی مقدار پر ہے کیونکہ ثقل جو مادّے سے پیدا ہوتی ہے وہی مکان و زمان کو خم دیتی ہے۔ یہ کائنات کے حتمی مقدر کے بارے تعین کرنے کے لئے اہم ہے جیسا کہ ہم باب 10 میں دیکھیں گے تاہم دونوں کھلی اور بند قسم کی کائنات ایک ہی طرح سے شروع ہوں گی۔
منفی خم اس خمدار سطح کی قسم کے برابر ہے جو صرف زین کی سطح کی طرح کھلی ہوئی ہو سکتی ہے۔ خم کی مقدار کوڈ سے ایک مرتبہ پھر اس پر انحصار کرتا ہے کہ کائنات میں کتنا مادّہ ہے (یا زیادہ درست بات یہ ہو گی کہ اس کے ارتقاء کے دوران کسی بھی وقت 'کائناتی دور' میں مادّے کی کمیت پر ہو گی)۔آئن سٹائن کا کائناتی مستقل زیادہ تنوع کے لئے جگہ دیتا ہے تاہم میں ان میں سے صرف ایک ہی امکان کا ذکر کروں گا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں