گیمو کے اس نظریہ نے فوری طور پر کائنات کو ہائیڈروجن دے دی تھی۔ ہر ہائیڈروجن کا جوہر سادہ طور پر ایک پروٹون اور ایک الیکٹران پر مشتمل ہوتا ہے جو اس کے پڑوس میں مخالف بار کے درمیان برقی قوّت سے جڑا ہوتا ہے۔ نیوٹران کو انحطاط کی اجازت دیں اور آپ کے پاس ہائیڈروجن کے مرکزے اور کافی تعداد میں الیکٹران موجود ہوں گے جو سب کے سب جوہر بنانے کے لئے تیار ہوں گے۔ تاہم باقی جوہر کہاں سے آئے وہ جو ہیلیئم اور دوسرے بھاری عناصر کو بناتے ہیں؟
1940ء کے دوران گیمو جب جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں لگا تو اس وقت سند حاصل کرنے والے ایک طالبعلم رالف الفر کو اس نے کام دیا کہ تفصیل معلوم کرے کہ کس طرح سے بگ بینگ میں پیچیدہ مرکزہ ہائیڈروجن سے بن سکتا ہے (وہ عمل جو نیوکلیائی تالیف سے جانا جاتا ہے)۔وہ نمونہ جو انہوں نے بنایا تھا اس کا انحصار ذرّات کے کثیف مادّے کے کائناتی شوربے میں ہونے والے تصادموں پر کائنات کی حیات کے شروع کے چند منٹوں میں ہوتا ہے۔ حسابات نے دکھایا کہ پروٹون (ہائیڈروجن کے مرکزے) اور نیوٹران کے لئے یہ نسبتاً آسان ہوگا کہ وہ اتنا زور سے ٹکرائیں کہ برقی ساکن کی دھکیل کی قوّت پر قابو پا لیں اور آپس میں جڑ جائیں تاکہ ڈیوٹیریئم کا مرکزہ بن سکے جس کو بھاری ہائیڈروجن کہتے ہیں۔ نیوٹران کے ساتھ ایک اور تصادم ٹریٹیم کے مرکزوں کو پیدا کر دے گا جس میں ایک پروٹون اور دو نیوٹران ہوں گے۔ تاہم ٹریٹیم غیر پائیدار ہے لہٰذا اس کا ایک نیوٹران جلد ہی ایک الیکٹران اور پروٹون میں ٹوٹ جاتا ہے۔ مرکزہ اب اس چیز میں بدل گیا ہے جو ہیلیئم کے ایک ہم جا کے برابر ہوتا ہے جس میں دو پروٹون اور ایک نیوٹران ہوتا ہے اور واضح وجوہات کی بنا پر ہیلیئم -3 کہلاتا ہے۔ اب اس کو صرف ایک اور نیوٹران کی ضرورت ہے جو بڑھتے ہوئے مرکزے سے چپک جائے تاکہ ایک الفا ذرّہ بن سکے یعنی ہیلیئم-4 جوہر کا مرکزہ۔ اب تک تو بہت اچھا چل رہا ہے۔ الیکٹران کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ایک مرتبہ مرکزہ بن گیا تو وہ آسانی کے ساتھ قدیمی شوربے کے ڈھیر سے ضرورت کے مطابق الیکٹران کو چن لیں گے۔ تاہم اس موقع پر نمونہ مشکل میں پھنس جاتا ہے۔
ہیلیئم-4 کے مرکزے یعنی کہ الفا ذرّہ خاص طور پر مستحکم حالت میں ہوتا ہے. اس کا جھکاؤ بالکل بھی اس طرف نہیں ہوتا کہ یا تو یہ ٹوٹ کر چھوٹے حصّوں میں بٹ جائے یا مزید اجزاء کو قبول کرے اور بڑھ کر مزید کسی پیچیدہ چیز میں بدلے۔ اس سے بھی بدتر یہ چیز کہ قدرتی طور پر کوئی ایسا عنصر نہیں پایا جاتا جس کے مرکزے میں پانچ ذرّات ہوں اور جب اس طرح کا ذرّہ مصنوعی طور تجربہ گاہ میں ہیلیئم-4 پر نیوٹران برسا کر بنایا جاتا ہے تو وہ فوراً ہیلیئم-4 میں دوبارہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اس مشکل کا سدباب کرنے کے لئے گیمو اور الفر کو قیاس کرنا پڑا کہ ایک ہیلیئم-4 کا واحد مرکزہ شاید کبھی کبار ایک ساتھ دو ذرّات کے ساتھ ٹکرایا اور ان دونوں کو پکڑ کر اس نے چھ ذرّات پر مشتمل مرکزہ بنالیا۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر وہی مسئلہ آٹھ ذرّات والے مرکزوں کے ساتھ آتا، جو بہت تیزی سے الفا ذرّات میں ٹوٹ جاتے ہیں۔ اور پھیلنے کی وجہ سے ایک تیزی سے مہین ہوتی ہوئی کائنات بگ بینگ کی فوق کثیف حالت سے دور ہو رہی ہو گی اور اس وقت تک کہ جب ہیلیئم بن گئی ہو گی دہرے ٹکراؤ کا اتفاق بہت ہی کم ہوگا اور تیزی سے اور کم ہوتا جائے گا۔ 1940ء میں اگرچہ اس طرح کے خلاء کو دو ذرّات کو ایک ساتھ پکڑ کر بھرنا بہت ہی ان ہونی لگتا تھا تاہم ابتدائی کائنات کے ماحول کے بارے میں اس وقت کافی لاعلمی تھی اور وہ شرح جس سے اس طرح کے نیوکلیائی رد عمل واقع ہو سکتے تھے انہوں نے گیمو اور الفر کواس نظریئے پر کام کرنے سے پیچھے ہٹا دیا۔ بہرحال جیسا کہ گیمو کی عادت تھی کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کو جو اس میں دلچسپی لیتا بتاتا تھا کہ نظریہ یہ بیان کرتا ہے کہ کائنات میں ساری ہائیڈروجن اور ہیلیئم کہاں سے آئی اور یہ قابل مشاہدہ ستاروں اور کہکشاؤں کا 99 فیصد حصّہ ہے۔ اگرچہ نظریہ ٹھیک طرح سے بھاری عناصر (فلکیات دانوں کے مطابق ہائیڈروجن اور ہیلیئم کے سب 'بھاری' عنصر ہیں ) کی تالیف کے بارے میں بیان نہیں کرتا تھا جو مسئلہ کا ایک فیصد سے بھی کم حصّہ تھے۔ مفصل تفصیلات کہ کس طرح سے مرکزہ نیوٹران اور پروٹون کو پکڑ لیتا ہے (حسابات سے جو اعداد سامنے آئے اس کو قید قطع عمودی کہا گیا) جس نے الفر کے پی ایچ ڈی کے مقالے کی بنیاد کو بنایا جس کو اس نے 1948ء میں جمع کروایا۔ واضح طور پر یہ بات اس قابل تھی کہ اس کو سامعین کی وسیع تعداد ملتی، بہرحال الفر اور گیمو نے طبیعیات نظر ثانی کے لئے ایک مقالہ جمع کروا دیا۔
اس موقع پر گیمو کی حس ظرافت پھڑک پڑی اور اس نے اپنا سب سے مشہور سائنسی مذاق کرڈالا۔ بعد میں اس نے لکھا کہ ' یہ یونانی حروف کے ساتھ ناانصافی ہو گی کہ مضمون کو صرف الفر اور گیمو ہی دستخط کریں لہٰذا ڈاکٹر ہنز اے بیتھ کا نام (غیر حاضری میں) میں اس وقت ڈال دیا گیا جب مسودہ چھپنے کے لئے تیار ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر بیتھ جس کو مسودے کی نقل فراہم کی گئی اس نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ 'لہٰذا وہ کلاسیکی مقالہ جس نے جدید بگ بینگ نمونے کے نسخے کے طور پر دن کی پہلی روشنی دیکھی وہ 1 اپریل 1948ء میں الفر، بیتھ اور گیمو کے نام سے ظہور پذیر ہوا، اس دن سے یہ 'الفا، بیٹا، گاما' مقالے کے نام سے جانا جاتا ہے، اس حقیقت کا ایک مناسب بیان کہ یہ چیزوں کی شروعات سے نمٹتا ہے اور یہ ذرّاتی طبیعیات کی اہمیت کو علم کائنات میں بھی ظاہر کرتا ہے (الفا ذرّات سے ہم پہلے ہی مل چکے ہیں؛ بیٹا ذرّات الیکٹران کا ہی ایک اور نام ہے اور گاما شعاع برقی مقناطیسی اشعاع کی شدید ضرب کا نام ہے یعنی توانا فوٹون)۔
بگ بینگ کا یہ نظریہ اسی 1948ء کے برس میں ظاہر ہوا جب فریڈ ہوئیل، ٹامی گولڈ اور ہرمن بونڈی اپنے پھیلتی ہوئی ساکن حالت والی کائنات کے نظریئے کے ساتھ نمودار ہوئے تھے۔1950ء اور 1960ء کے عشرے میں دو مخالف تصورات نے ماہرین کے درمیان بحث چھیڑ دی تھی جس میں ہوئیل ساکن حالت اور گیمو بگ بینگ کے نظریئے کی سربراہی دوستانہ مخالفت میں کر رہے تھے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ ہوئیل ہی تھا جس نے گیمو کی کائنات میں آنے والی سب سے بڑی مشکل کو حل کرنا کا راستہ دکھایا، ایک مرتبہ جب بگ بینگ میں ہیلیئم کے پکنے کا ابتدائی کام مکمل ہو گیا تو اس نے ستاروں کے اندر بھاری عناصر کے بننے کا طریقہ تلاش کیا۔ تاہم کہانی میں ایک اور حیرت انگیز پہلو موجود ہے جس میں سائنس کی دنیا میں سب سے اہم موقع کو ضائع کیا گیا اور اس طریقے پر زور دیا گیا جس کی وجہ سے ماہرین تکوینیات نے اپنی ہی مساوات کو اس وقت سنجیدگی سے نہیں لیا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں