Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    اتوار، 9 اپریل، 2017

    بگ بینگ اور دو سوالات

    دو سوالات

    ان دنوں میں علم کائنات ایک کھیل کے میدان ہی کی طرح تھا۔ حریف نمونے بنائے جاتے تھے اور ان کو ایک دوسرے کے خلاف ایک قسم کی خیالی ریاضیاتی مبارزت کے طور پر جانچا جاتا تھا اس بات پر زور کم ہی ہوتا تھا کہ ان میں سے حقیقت میں کوئی نمونہ ہماری اپنی کائنات کا درست ریاضیاتی بیان ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ گیمو جو اپنے کائنات کے نظریئے سے اس قدر محبت کرتا تھا جیسے کہ وہ اس کا بیٹا ہو وہ بھی اسی جال میں پھنس گیا تھا۔

    بگ بینگ میں ہیلیئم کو بنانے کے لئے درکار شرائط (بھاری عناصر کی تو بات ہی چھوڑ دیں) میں بہت ہی زیادہ کثافت اور بہت ہی زیادہ درجہ حرارت شامل تھے۔ اگرچہ آپ ایک ٹھنڈے نیوٹران کے شوربے کا تصور کر سکتے ہیں جو بہت ہی بلند کثافت کی حالت سے دور پھیل رہا ہو، سادہ سے حساب سے بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ اس طرح کا ٹھنڈا نیوٹران کا شوربہ بہت تیزی کے ساتھ لگ بھگ پورا کا پورا ہیلیئم میں تبدیل ہو جائے گا۔ گرم بگ بینگ میں صرف زیادہ تر مادّہ وہ ہو سکتا ہے جو ہائیڈروجن کی صورت میں قائم رہتا ہے اور حیرت انگیز طور پر صرف ایک ہی اس طرح کی چیز زیادہ کچھ اثر نہیں ڈالتی کہ نمونہ کائنات کی اصل کثافت تخلیق کے کچھ لمحوں بعد کیسی ہو گی۔ بشرطیکہ کائنات بہت گرم تھی آپ کو ہمیشہ لگ بھگ ایک تہائی مادّہ ہیلیئم میں بدلتا ملے گا جبکہ باقی اس وقت تک ہائیڈروجن میں باقی رہے گا تاوقتیکہ وہ کائنات کے ارتقاء میں ستاروں میں دوبارہ بنایا نہ جائے۔

    جب کائنات زبردست تعداد میں توانا اشعاع کی وجہ سے بہت زیادہ کثیف تھی تو زیادہ تر ہائیڈروجن ہیلیئم میں پکنے سے بچی رہی۔ برقی مقناطیسی اشعاع کو ذرّات کی اصطلاح میں خیال کیا جا سکتا ہے جو فوٹون کہلاتے ہیں۔ الفر اور ایک دوسرا نوجوان محقق رابرٹ ہرمن نے اس اطلاع کو کہ کائنات کا ایک تہائی ہیلیئم ہے جب کہ باقی ماندہ ہائیڈروجن ہے استعمال کرکے حساب لگایا کہ کتنے پروٹون کو کائنات میں موجود ہونا چاہئے؛ تو ایک ہر نیوکلیائی ذرّے (یعنی ہر نیوٹران اور پروٹون) کے لئے ششدر کر دینے والی ایک ارب پروٹون کی تعداد نکل آئی۔ اشعاع - پروٹون - توانائی کی ایک قسم ہے اور اشعاع کی کثافت (مخصوص خلاء میں توانائی کی تعداد) کو درجہ حرارت کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ کائنات کے ابتدائی لمحات میں فرائیڈ مین کی مساوات کو پیچھے لے جائیں، الفر اور ہرمن نے دکھایا کہ لازمی ایسا وقت ہونا چاہئے جب اشعاع کی توانائی کی کثافت مادّے کی توانائی کی کثافت سے زائد ہو گی جس کو آئن سٹائن کی مشہور زمانہ مساوات E = mc2 میں دیا۔ گیمو کی کائنات اشعاع کی گیند سے نکل کر بنی تھی اور پھیلنے کے ساتھ ہی تیزی سے ٹھنڈی ہو گئی اور پھیلنے اور مخصوص مقدار میں ٹھنڈی ہونے کے بعد ہی اس میں مادّے کا غلبہ ہوا تھا۔ تاہم اشعاع اس وقت بھی وہاں موجود تھی اور پوری کائنات پر چھائی ہوئی تھی تاہم اب یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مہین، ٹھنڈی اور کمزور ہو گئی تھی۔1948ء میں الفر اور ہرمن نے ایک مقالہ شایع کیا جس میں انہوں نے دور حاضر میں اس باقی ماندہ اشعاع کے درجہ حرارت کا حساب لگایا کہ اس کو مطلق صفر سے پانچ درجے اوپر ہونا چاہئے۔

    اپنی مشہور کتاب کائنات کی تخلیق جو 1952ء میں شایع ہوئی گیمو نے کائنات کے دور حاضر کے درجہ حرارت سے تھوڑا سے مختلف تخمینہ لگایا (اور ہربل کے ضدی انکار کا نوحہ بھی پڑھا جس میں اس نے اس کا نام تبدیل کرکے ڈیلٹر رکھنے سے منع کر دیا تھا)۔اس نے ایک مساوات حاصل کی جو کہتی تھی کہ درجہ حرارت کو1.5*10^10سے سیکنڈوں میں کائنات کی عمر کے مربع الجذر سے تقسیم ہونے والے عدد کے برابر ہونا چاہئے۔ اس نے اس کو 50 کیلون کا تخمینہ دیا۔1950ء کے عشرے کے دوسرے وقت میں گیمو اور اس کے رفقائے کار 5 کیلون سے 50 کیلون تک کے دوسرے عدد کے ساتھ آئے جس کا انحصار کائنات کی ابتدائی حالت اور اس کی عمر کے بارے میں لگائے گئے قیاس کے بارے تھا۔ آج ذرّاتی طبیعیات دان گیمو کی مساوات کے مزید درست نسخے سے حساب لگاتے ہیں جس میں درجہ حرارت کو سادے طریقے سے اب 10^10 کو سیکنڈوں میں عمر کے جزر المربع سے تقسیم کرنے کے بعد لیتے ہیں مزید عمر کے بارے میں تخمیناجات بھی بڑھ گئے ہیں یہ تمام موجودہ کائنات کے بلند درجہ حرارت کے تخمینے کو کم کرتے ہیں۔ یہ مساوات تو صرف ایک اندازہ لگائی نسبت ہے اور اس سے بہتر طریقے موجود ہیں جس میں کائنات کا درجہ حرارت کسی بھی دور میں حاصل کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ ایک مفید طریقہ ہے جو مثال کے طور پر ہمیں بتاتا ہے کہ تخلیق کے لمحے کے ایک سیکنڈ کے بعد درجہ حرارت 10 ارب ڈگری ہوگا، اور 100 سیکنڈ کے بعد درجہ حرارت ٹھنڈا ہو کر ایک ارب ڈگری ہو گیا ہوگا اور ایک گھنٹے کے بعد یہ 17 کروڑ ڈگری تک کم ہو گیا ہوگا۔ موازنے کے لئے ہمارے سورج کے قلب کا درجہ حرارت کا حساب لگ بھگ 1 کروڑ 50 لاکھ ڈگری لگایا گیا ہے۔

    یہاں پر گرم بگ بینگ نظریئے نے واضح پیش گوئی کردی تھی۔ یہ کہا جا سکتا تھا کہ کائنات کو اشعاع کے سمندر کے ساتھ بھرا ہوا ہونا چاہئے تھا جس کی توانائی چند کیلون درجہ حرارت کی ہونی تھی۔ اس طرح کی اشعاع کا سراغ ریڈیائی طول موج سے لگایا جا سکتا تھا اور ریڈیائی فلکیات نے 1950ء کے عشرے میں ہی شروع ہو رہی تھی۔ تاہم کسی بھی ریڈیائی فلکیات دان نے اس تصور کو لے کر جانچنے کی کوشش نہیں کی، جبکہ گیمو اور اس کی ٹیم اپنے راستے پر دوسرے تحقیقی میدان میں چلے گئے (گیمو خود سے ڈی این اے کے جنیاتی رمز کو توڑنے میں دلچسپی لیتا تھا)، اور کبھی اس نے منظم کوشش ہی نہیں کی کہ اس خیال میں لوگوں کی دلچسپی کو پیدا کرے اور ان کی حوصلہ افزائی کرے یا ان کو مجبور کرے کہ ریڈیائی فلکیات دان ٹھیک طرح سے حرکت میں آئیں۔ مسئلہ کیا تھا؟ بہترین وضاحت وہ ہے جس کو طبیعیات دان اسٹیون وائن برگ نے اپنی کتاب پہلے تین منٹ میں دی۔ وہ کہتا ہے، 'یہ طبیعیات دانوں کے لئے بہت ہی مشکل تھا کہ ان دونوں وہ ابتدائی کائنات کے نظریئے کو سنجیدگی سے لیں۔ ' ہماری غلطی یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے نظریات کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لیتے ہیں بلکہ اصل میں یہ ہے کہ ہم ان کو سنجیدہ ہی نہیں لیتے۔ اس بات کا احساس کرنا بہت مشکل ہے کہ یہ اعداد و مساوات جو ہماری میز پر رکھے ہوئے ہیں جن سے ہم کھیلتے ہیں ان کا حقیقی دنیا سے کوئی لینا دینا ہے۔

    1956ء تک جب گیمو کولوراڈ گیا اور اس کا گروپ ٹوٹ گیا تو گرم بگ بینگ کے ابتدائی نسخے نے دو سوالات اٹھائے، جن کے جوابات نے آگے ہونے والی مزید پیش رفت کی بنیاد بننا تھا۔ ان سوالات میں سے ایک سوال کو کافی شہرت ملی اور 1950ء کے اواخر اور 1960ء کے ابتدائی عشرے میں اس کے جواب کے لئے زبردست کوششیں کی گئیں۔ سوال یہ تھا کہ وافر بھاری عناصر بگ بینگ میں نہیں بنے تھے تو آخر کہاں سے آئے تھے۔ دوسرے سوال پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی اور وہ سائنسی ادب میں اس وقت تک دفن رہا جب تک اتفاق سے اس کا جواب 1964ء میں مل نہیں گیا۔ یہ کائنات کے پس منظر کے موجودہ درجہ حرارت کے بارے میں تھا۔ ان دونوں جوابات کو ملا کر - جن میں سے ہر ایک نے نوبل انعام جیتا- گیمو کی کائنات نے علم کائنات کو جدید دور میں داخل کیا۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: بگ بینگ اور دو سوالات Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top