کھوئے ہوئے برس
یہ تصور کہ کائنات کا درجہ حرارت لیا جائے اور اس پیمائش کا استعمال کر کے اس بگ بینگ کے بارے میں جانا جائے جس میں کائنات پیدا ہوئی تھی 1950ء کے عشرے میں طبیعیات دانوں اور ماہرین فلکیات کے لئے بہت دور کی کوڑی تھی جس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا جاتا۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اس تصور کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا گیا تھا، اور ایک سے زیادہ فلکیات دانوں نے پیچھے مڑ کر افسوس سے اس عشرے میں جھانکا اور مجازی طور پر اپنے آپ کو اس منطقی نتیجے کے ذریعہ اس خیال سے باز رکھا۔ حقیقت میں گیمو، الفر اور ہرمن نے اس احساس کو لازمی طور پر بتایا ہو گا - کم از کم اس وقت سے جب کچھ فلکیاتی مشاہدات نے واضح طور پر پس منظر کے درجہ حرارت کو لگ بھگ 3 کیلون کے پہلے ہی 1930ء کی دہائی میں مترشح کر دیا تھا اور لامحالہ طور پر یہ بات گیمو اور ان کے رفقائے کار 1950ء کی دہائی میں جانتے تھے۔
ان مشاہدات کا انحصار خلاء سے زیادہ تر اطلاعات حاصل کرنے کی طرح طیف بینی پر تھا۔ 1930ء کی دہائی میں پہلی مرتبہ فلکیات دانوں کو وہ استعداد حاصل ہوئی جس سے انھوں نے بین النجمی خلاء میں سالمات کی موجودگی کے طیفی خصائل کو شناخت کرنا شروع کر دیا۔ ستاروں کی روشنی ستارے کے کرۂ فضائی میں موجود جوہروں کے طیفی شناخت (زیادہ بہتر طور پر برق پاروں، جوہر جس میں سے کچھ الیکٹران الگ ہوں ) کو لئے ہوئے ہوتی ہیں۔ مخصوص خطوط بطور آٹھ روشن خطوط (اشعاعی توانائی) یا تاریک جذبی خطوط (نیچے والے ستارے کی جذبی توانائی) کے طور پر برقی مقناطیسی طیف میں خارج ہوتے ہیں۔ ان خطوط کی طاقت اور وہ برق پاروں کی ظاہری حد فلکیات دانوں کو اس قابل کرتی ہے کہ نہ صرف دور دراز ستارے کے درجہ حرارت کو اخذ کر سکیں بلکہ اس کے اجزائے ترکیبی کا بھی تعین کر سکتے ہیں۔ تاہم طیف میں کچھ ایسے خطوط بھی ہوتے ہیں جو ان مرکبات کے مماثل ہوتے ہیں جو ممکنہ طور پر ستارے کی سطح کے درجہ حرارت پر قائم نہیں رہ سکتے۔ ان ابتدائی شناخت ہونے والے مرکبات میں سے ایک نیلین، سی این تھا، ایک کاربن جوہر اور ایک نائٹروجن کے جوہر کا مستقل جوڑا جو اس چیز کو بناتا ہے جو اب اصلی کہلاتی ہے۔ اس طرح کے اجزاء ستاروں میں خود سے نہیں بن سکتے کیونکہ وہاں پر حرارت جلد ہی ان کے جز جوہروں میں ان کو توڑ ڈالے گی تاہم یہ ستاروں کے درمیان گیس کے ٹھنڈے بادلوں اور گرد میں بن سکتے ہیں۔ ان کی موجودگی ان تاریک خطوط سے ظاہر ہوتی ہے جو وہ دور دراز ستارے کی ٹھنڈے بادلوں میں سے گزر کر آتی ہوئی روشنی میں نقش ہوتے ہیں۔
جس طرح نجمی طیف کے مشاہدات نے ستاروں کے درجہ حرارت کو ظاہر کیا اسی طرح سے ان جذبی طیف کے مشاہدات نے بین النجمی مادّے کے بادلوں کے درجہ حرارت کو ظاہر کیا۔ 1940ء میں ماؤنٹ ولسن پر ڈبلیو ایس ایڈمز نے بین نجم طیفی خطوط کا مشاہدہ کیا جو نیلین کی توانا حالت کے برابر تھے اور کینیڈا میں واقع ڈومینین ایسٹرفزیکل رصدگاہ کے اینڈریو مک کیلر نے ان مشاہدات کی توضیح بین النجمی بادلوں کے 2.3 کیلون درجہ حرارت کے لگ بھگ دیا۔ 1950ء تک نتائج طیف بینی کی معیاری درسی کتب میں درج تھے اور بشمول گیمو کے کافی فلکیات دانوں کو اس بارے میں علم تھا۔ تاہم کسی نے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ٹھنڈے ترین مادّے کے بادل جو خلاء میں پائے گئے ہیں یہ ' کائنات کا درجہ حرارت' ہوں گے۔ 1965ء میں دو چار ہاتھ جبکہ لب بام اس وقت رہ گیا جب فریڈ ہوئیل اور جارج گیمو جنوبی کیلی فورنیا میں لاجولا کے قریب نئی سفید کیڈلک میں گشت کر رہے تھے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں