Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    ہفتہ، 29 اپریل، 2017

    کائناتی پس منظر کی اشعاع


    1960ء کے ابتدائی عشرے میں ڈک خود بھی اپنی پیمائش کو بھول چکا تھا۔ تاہم اس تصور نے علم کائنات میں انقلاب بپا کرنا تھا، حیرت انگیز طور پر گیمو، الفر اور ہرمن کے رہنما کام سے مکمل طور پر بظاہر لاعلم رہ کر اس نے کائنات کے نمونے کی تفتیش کی جس میں وہ ایک عظیم حجم سے آگ کے گولے میں منہدم ہو جاتی ہے اور اس کے بعد اچھل کر بہت بلند کثافت کی حالت سے دور جا کر پھیل جاتی ہے۔ ڈک اس خیال سے متحیر تھا کہ کائنات شاید ایک پھیلنے کے مرحلے میں جھول رہی ہے جو شاید ازل تک جاری رہ سکتا ہے، اور ہر پھیلاؤ کے چکر میں وہ منہدم بھی ہوتی ہے، اور ہر مرتبہ منہدم ہونے کے بعد ایک نئے پھیلاؤ کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ اور اس کو منہدم ہونے کے عمل کو جاری رکھنے اور واپس 'اچھلنے ' کے لئے بہت بلند درجہ حرارت اور کثافت کی صورت درکار تھی تاکہ منہدم ہوتی ہوئی کائنات میں تمام مادّہ پھیلاؤ کے نئے مرحلے کو شروع ہونے سے پہلے واپس نیوٹران اور پروٹون میں ٹوٹ جاتا - لہٰذا کوئی بھی ایسی 'اطلاع' نہیں ہونی چاہئے تھی جو کائنات کے ایک چکر سے دوسرے چکر میں جا سکتی اور جو کوئی بھی پھیلتی ہوئی کائنات میں رہتا اس کے لئے کائنات ایسی ہی ہوتی جیسا کہ وہ بگ بینگ میں تخلیق ہوئی ہے۔ 

    یہ تمام چیزیں اب بھی علم کائنات کی روح میں ایک دانشورانہ کھیل کی مشق کی طرح ہیں۔ تاہم ڈک کے بطور شاہد تجربے (اگرچہ اس کو نصف وہ بھول چکا تھا) نے اس کو اور اس کے رفقائے کاروں کو صحیح راستے پر گامزن کر دیا تھا۔ اس نے پرنسٹن میں ایک نوجوان محقق پی جی ای پیبلز کو یہ کام دیا کہ وہ معلوم کرے کہ اس طرح کے کائناتی نمونے میں ارتقاء کے ساتھ درجہ حرارت کس طرح کا تبدیل ہو گا؛ بے خبر رہ کر اس نے دوبارہ وہی حساب دہرائے جو ان سے پہلے الفر اور ہرمن نے پندرہ برس پہلے لگائے تھے، پیبلز نے دیکھا کہ اگر وہ کائنات جس میں ہم رہتے ہیں اس کی شروعات بگ بینگ سے ہوئی ہو گی تو اس کو پس منظر کی اشعاع کے سمندر سے لگ بھگ 10 کیلون سے زیادہ کے درجہ حرارت سے بھرا ہوا ہونا چاہئے، پیبلز کے حساب کی روشنی میں ڈک نے پرنسٹن کے عملہ تحقیق کے دو اراکین کو ان اشعاع کی تحقیق کرنے کی ترغیب دی۔ پی جی رول اور ڈی ٹی ولکنسن نے ایک سراغ رساں لگایا (ڈک کے ریڈیائی پیما کی ایک صورت) اور انہوں نے ایک چھوٹے انٹینے کو پرنسٹن کی طبیعیات کی تجربہ گاہ کی چھت پر بنانا شروع کر دیا تاکہ وہ پس منظر کی کائناتی اشعاع کا سراغ چند کیلون درجہ حرارت کے ساتھ لگا سکیں۔ تب جب یہ تاریخی دریافت ہونے والی ہی تھی کہ پرنسٹن کی جماعت کے قدموں سے زمین نکال دی گئی۔ ڈک نے بیل ریسرچ لیبارٹریز سے ایک نوجوان کی فون کال لی جو پرنسٹن سے صرف 30 میل کی دوری پر ہولمڈل، نیو جرسی سے آئی تھی۔ فون کرنے والا آرنو پنزیاز اور اس کا رفیق رابرٹ ولسن تھے، جو اپنی 20 فٹ کی شاخ دار انٹینے کی ریڈیائی دوربین سے کچھ عجیب و غریب سے نتائج حاصل کر رہے تھے، یہ ابتدائی دور کے مصنوعی مواصلاتی سیارچوں کے تجربات میں استعمال ہوتی تھی۔ کسی نے مشورہ دیا کہ ہو سکتا ہے کہ ڈک کائناتی پس منظر کی اشعاع کے معمے کے بارے میں کچھ بتا سکے ؛ شاید وہ سب مل کر اس سلسلے میں بات کر سکیں۔ ۔ ۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: کائناتی پس منظر کی اشعاع Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top