اگرچہ بحیثیت مجموعی نظریئے کا خاکہ حقیقت میں کافی اچھا نظر آتا ہے تاہم جب ایڈنگٹن نے خیال پیش کیا کہ سورج اور ستاروں کی توانائی کا منبع ہائیڈروجن کا ہیلیئم میں ضم ہونا چاہئے تو اس کے دور کے کافی ہم عصر طبیعیات دانوں کے اس خیال کو رد کر دیا۔ ایسا کرنے کی وجہ اس وقت سمجھ میں آتی ہے۔ سورج کی ساخت پرایڈنگٹن کے بنیادی قوانین کا اطلاق کرنے کے لئے درجہ حرارت کا حساب لگانا شامل تھا جس کو سورج کے قلب میں لازمی طور پر قائم رہنا چاہئے تھا تاکہ سطح پر نظر آنے والی تابانی اور اتنے دباؤ کو پیدا کرنا کہ سورج قوّت ثقل کی وجہ سے اندرونی طور پر منہدم نہ ہو سکے۔ یہ درجہ حرارت کیلون کے پیمانے پر 1 کروڑ 50 لاکھ ڈگری ہے۔ بہت سارے ذرّات کے درمیان شراکتی حرکی توانائی کی صورت سادہ طور پر درجہ حرارت کی ہے - میری ہوا پر کی گئی تحقیق بتاتی ہے کہ درجہ حرارت اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ اوسطاً تیزی سے ایک عام سالمہ ہوا میں کیسے حرکت کر رہا ہے۔ سورج کے قلب میں درجہ حرارت وہ پیمائش ہے کہ کتنی تیزی سے اوسطاً ایک عام پروٹون اس وقت حرکت کر رہا ہوتا ہے جب وہ متواتر اپنے پڑوس میں آس پاس اچھلتا اور ٹکراتا ہے۔ جتنا زیادہ درجہ حرارت ہو گا پروٹون کی رفتار بھی اتنی تیز ہو گی اور وہ دباؤ بھی بہت زیادہ ہو گا جو وہ ایک دوسرے اور اپنے سے اوپر موجود تہ پر ڈال رہے ہوں گے - بے شک یہی وہ بات تھی جس کی وجہ سے ایڈنگٹن درجہ حرارت کو پہلی مرتبہ میں ناپنے کے قابل ہوا۔ مسئلہ یہ تھا کہ جو درجہ حرارت اس کو ملا وہ 1 کروڑ 50 لاکھ کا تھا جو اس قدر زیادہ نہیں تھا کہ اس میں عمل گداخت شروع ہو سکے۔
دو پروٹون کے درمیان عمل گداخت (سب سے سادہ صورت میں ) اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ اتنی طاقت سے ایک دوسرے سے ٹکرائیں کہ وہ اپنے درمیان موجود برقی قوّت پر غالب آ جائیں۔ واپس آتش فشاں کی مثال پر چلتے ہیں پہاڑی کی دو مختلف سمتوں سے دو ذرّات اتنی رفتار سے دوڑتے ہیں جو ان کو ڈھلوان سے لے کر چوٹی تک پہنچا دے جہاں وہ کھائی کے اندر گر جائیں وہ علاقہ جہاں مضبوط نیوکلیائی قوّت کی حکمرانی ہوتی ہے۔ 1 کروڑ 50 لاکھ کیلون درجہ حرارت پر پروٹون کا سمندر سورج کے قلب میں موجود کثافت پر بھی اتنی توانائی نہیں رکھتا کہ اتنی تعداد میں ٹھیک طرح سے تصادم وقوع پذیر ہو سکیں جس سے عمل گداخت شروع ہو جائے اور سورج کی حرارت پیدا کر سکے - یا ایسا اس وقت لگا تھا جب طبیعیات دانوں نے پہلی مرتبہ حساب کتاب لگایا تھا۔ دونوں صورتوں میں یا تو طبیعیات دان غلط تھے یا پھر ایڈنگٹن کا حساب۔
ایڈنگٹن کو اپنے اعداد و شمار پر بھروسہ تھا اور وہ اپنے متشکک رفقائے کاروں کو یہ کہتا پایا جاتا تھا کہ 'جا کر کوئی اور گرم جگہ ڈھونڈ لو' (دوسرے الفاظ میں جہنم میں جاؤ)۔ تاہم معمے کا حل جلد ہی آنے والا تھا، بڑی حد تک گیمو کا شکریہ جس نے وہ مساوات بنائی جو یہ بیان کرتی تھی کہ کس طرح الفا ذرّہ ضخیم مرکزے کے طاقتور کنویں (آتش فشانی گڑھے ) سے نکل سکتے ہیں۔ عمل گداخت کو سمجھنے کی ایک اہم کنجی کوانٹم طبیعیات کا وہ مظہر ثابت ہوا جس کو عدم یقین کہتے ہیں۔ مختصراً طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت میں دو پروٹون آپس میں تصادم کے دوران اتنا دبتے ہیں کہ ان کو برقی قوّت کی امکانی رکاوٹ کو پار کرنے کے لئے چڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر وہ رکاوٹ کے قریب پہنچیں گے تو وہ اس وقت بھی سرنگ بنا کر طاقتور کنویں کے اندر گر جائیں گے جب ان کے پاس اس کو پار کرنے کی توانائی بھی موجود نہیں ہو گی۔ یہ ہی وہ توجیح ہے جس کو گیمو نے ذرّات کو 'پہاڑ کی چوٹی کو سر کئے بغیر' مرکزے سے فرار ہونے کے لئے پایا تاہم وہ اسی طرح کنویں سے نکل بھی سکتے ہیں۔ سرنگ کا اثر عمل گداخت کے لئے قابل ذکر ذریعہ فراہم کرتا ہے جس سے وہ 1 کروڑ 50 لاکھ کیلون پر بھی واقع ہو جاتا ہے۔
لہٰذا چیزیں 1930ء کے عشرے میں ٹھیک تھیں۔ کم از کم ماہرین کی حد تک یہ بات واضح تھی کہ سورج کو ضرور نیوکلیائی عمل گداخت سے توانائی مل رہی ہے اور اس کا تعلق مادّے کے توانائی میں تبدیل کرنے سے ہی تھا۔ کیونکہ سورج 70 فیصد ہائیڈروجن اور 28 فیصد ہیلیئم سے بنا ہے اور ہیلیئم کا مرکزہ جزوی طور پر مستحکم ہوتا ہے لہٰذا یہ بات بھی واضح ہونے لگی کہ اس اہم عمل میں ہائیڈروجن کی تبدیلی ایک وقت میں چار پروٹون والے ہیلیئم میں ہو رہی ہو گی۔ تاہم اس وقت تک کوئی بھی ٹھیک طریقے سے یہ نہیں جانتا تھا کہ کس طرح سے پروٹون ہیلیئم کے مرکزے میں تبدیل ہو رہے تھے جب تک ہنس بیتھ (یہ وہی بیتھ ہیں جنہوں نے 'غیر حاضر' بیچ کے مصنف کی حیثیت الفا، بیٹا اور گاما کے مقالے میں لافانی شہرت حاصل کی تھی) نے 1939ء میں وہ طریقہ نہیں بتایا جس میں یہ ترکیب چلتی ہے۔ اس کے کام نے فلکی طبیعیات کی تحقیق میں نئے خطوط کو شروع کیا یعنی کہ یہ تفتیش کہ کس طرح ستارے کے اندر عناصر بنتے ہیں (نجمی نیوکلیائی تالیف)۔ اس کو فلکی طبیعیات کی نئی نسل نے (دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے مختصر سے دیری کے بعد) آگے بڑھایا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں