Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 21 اپریل، 2017

    ستاروں کا چکر اور زنجیری عمل

    ہنس بیتھ اسٹراسبروس (اس وقت جرمن اور اب فرانس کا حصّہ ہے ) میں 1906ء میں پیدا ہوا۔ عید نسے فرینکفرٹ اور میونخ کی جامعات میں تعلیم حاصل کی اور 1928ء میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے کے بعد اس نے طبیعیات پڑھانا اور جرمن کی جامعات میں 1933ء تک تحقیق کرنا شروع کی۔ جرمن میں نازیوں کے عروج کے ساتھ بیتھ برطانیہ منتقل ہو گیا جہاں ایک برس اس نے مانچسٹر یونیورسٹی جبکہ ایک برس برسٹول میں گزارا جہاں اس نے 1935ء تک کام کیا۔ جب اس نے برسٹول یونیورسٹی کو چھوڑا تو بیتھ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں واقع کارنیل یونیورسٹی چلا گیا اور فطری امریکی شہری بن گیا۔ 1940ء کی دہائی میں بیتھ نے مین ہٹن منصوبے پہلی جوہری بم کی صورت گری اور اس کو بنانے پر کام کیا؛ بعد میں اس نے جنیوا میں منعقد پہلی بین الاقوامی پابندی جانچ کانفرنس میں نمائندگی کی تاکہ فوق قوّتوں کے درمیان نیوکلیائی ہتھیاروں کی فضائی جانچ پر پابندی کے معاہدے میں مدد کر سکے، اور اس نے معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد نیوکلیائی تخفیف اسلحہ سے متعلق مسائل کے حل کے لئے مشورے دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ تاہم اس کا سائنس میں اہم کام 1938ء میں ہونے والے کام کے ساتھ آیا اور اس کی اشاعت 1939ء میں ہوئی، جس میں بتایا گیا کہ کسی طرح سے ستارے کے اندر ہیلیئم بناتے ہوئے توانائی پیدا ہوتی ہے۔ یہی اصل میں کام تھا جس کی وجہ سے اس نے نوبل انعام حاصل کیا۔ 

    ستارے کے اندر توانائی کو پیدا کرنے والے پہلے بیتھ کے نظام میں بھاری مرکزے خاص طور پر کاربن اور ہائیڈروجن کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔ اس نے حساب لگایا کہ ٹھیک ماحول میں کاربن - 12 کے مرکزے کے ساتھ پروٹون کے تصادم میں نائٹروجن-13 کے مرکزے پیدا ہوتے ہیں جو بعد میں ایک پوزیٹران کو خارج کر کے کاربن-13 بن جاتے ہیں۔ بعینہ اسی طرح ستارے کے قلب میں مرکزے اور دوسرے پروٹون (ہائیڈروجن کے مرکزے )کے درمیان مزید تصادم پہلے نائٹروجن-14 کے مرکزوں کو بناتے ہیں اس کے بعد ایک آکسیجن-15 کو جو پوزیٹران کو خارج کر کے نائٹروجن-15 میں انحطاط پذیر ہو جاتے ہیں۔ اس مرحلے پر جب دوسرے پروٹون مزید تصادم جھیلتے ہیں تو سب سے زیادہ امکان جس عنصر کو ہوتا ہے وہ نہیں بناتے یعنی کہ آکسیجن-16 بلکہ چار نویہ میں بطور الفا ذرّات کے ٹوٹ کر ہیلیئم کا مرکزہ بناتے ہیں اور اپنے پیچھے کاربن-12 کو چھوڑ دیتے ہیں یعنی اسی چیز کو جہاں سے آپ نے شروع کیا تھا۔ ایک ہزار تصادموں میں سے صرف ایک ہی میں آکسیجن-16 کا مرکزہ بنتا ہے اور اس کے بعد مزید پروٹون کے شامل ہو جانے کے بعد یہ ایک الفا ذرّہ خارج کرتا ہے اور نائٹروجن-14 میں انحطاط پذیر ہو کر اس چکر کو دوبارہ سے شروع کر دیتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چار پروٹون ہیلیئم کے ایک مرکزے میں تبدیل ہو جاتا ہے اور مناسب توانائی کو خارج کرتا ہے۔ اور کیونکہ کاربن-12 کو واپس وہاں رکھ دیا جاتا ہے جہاں سے وہ آیا تھا تاکہ وہ ایک عمل انگیز کے طور پر مزید ہونے والے عمل گداخت کے چکر میں کام آئے، بہت سارے نیوکلیائی عمل گداخت اور کافی ساری توانائی کو پیدا کرنے کے لئے تھوڑے سے ہی کاربن کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

    اس عمل میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم کے علاوہ کاربن نائٹروجن اور آکسیجن کے مرکزوں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ایک دائرے میں گھومتا رہتا ہے جس کی شروعات و اختتام کاربن-12 سے ہوتا ہے اور اس دوران وہ چار پروٹون کو ساتھ ساتھ ایک ہیلیئم کے مرکزے میں تبدیل کر دیتا ہے۔ قدرتی طور پر یہ کاربن نائٹروجن آکسیجن چکر یا سی این او چکر کہلاتا ہے۔ بیتھ اور اس کے رفیق کار چارلس کرچ فیلڈ اس کے بعد ستاروں کے اندر ہائیڈروجن کے عمل گداخت کے ایک اور متبادل راستے کے ساتھ نمودار ہوئے۔ یہ وہ مرحلہ بہ مرحلہ عمل ہے جو ہائیڈروجن کے مرکزے سے شروع ہوتا ہے اور پہلا ڈیوٹیریئم بناتا ہے اس کے بعد ہیلیئم-3 اور پھر ہیلیئم-4 چاہئے براہ راست یا ہیلیئم مرکزوں کے درمیان تصادم سے جس میں وہ مرکزے پیدا ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک سات نویہ پر مشتمل ہوتا ہے جو صرف ایک مزید پروٹون کے اضافے کے ساتھ دو الفا ذرّات میں تبدیل ہونے کے لئے تیار رہتا ہے۔ یہ عمل - جس سے ہم پچھلے باب میں مل چکے ہیں جو عنصر عدد چار ہیلیئم پر رک جاتا ہے - دو پروٹون کے ساتھ شروع ہوتا ہے جو ٹکرا کر ڈیوٹیریئم بناتے ہیں یہ عمل پروٹون-پروٹون یا پی پی زنجیر کہلاتا ہے۔ 

    جدول 6.1 سی این او چکر۔ 

    بیتھ کے حساب نے بتایا کہ اس طرح کے رد عمل اس درجہ حرارت اور دباؤ کے ماحول میں جاری رہ سکتے ہیں جس کو ایڈنگٹن نے بتایا تھا کہ اس کو ستارے کے اندر لازمی موجود ہونا چاہئے تھا۔ حقیقت میں ہمارے سورج پر توانائی کے پیداواری عمل پر اسی پی پی زنجیری عمل کا غلبہ ہے جو درکار کارکردگی پر لگ بھگ درجہ حرارت 1 کروڑ 50 لاکھ کیلون پر کام کرتا ہے، سی این او چکر بلند درجہ حرارت پر 2 کروڑ درجہ حرارت کیلون کے اوپر اور بہتر کام کرتا ہے لہٰذا یہ مزید ضخیم ستاروں میں زیادہ اہم ہوتی ہے، جن کو اندر سے زیادہ گرم ہونا ہوتا ہے تاکہ ثقلی طور پر منہدم ہونے کے خلاف مزاحمت کر سکیں۔ تاہم یہ دلچسپ تفصیلات براہ راست بگ بینگ کی تلاش اور کائنات کے حتمی مقدر سے متعلق نہیں ہیں۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ستاروں کا چکر اور زنجیری عمل Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top