بیتھ کا کام یہ نہیں بتاتا کہ ستاروں کے اندر کاربن پہلے پہل کیسے آیا تاہم یہ ضرور بیان کرتا ہے کہ کس طرح سے ہمارے سورج کی طرح کے ستارے اس توانائی کا استعمال کرتے ہیں جو ہائیڈروجن کے ہیلئم میں بدلنے کے دوران میں دستیاب ہوتی ہے۔ حساب کا انحصار ذرّات کے ایک دوسرے کے تعاملات کے طریقے کی پیمائش - ان کے ایک دوسرے کو کاٹنے کے حصّے پر- تجرباتی ماحول پر ہوتا ہے اور ان ایک دوسرے کو کاٹنے والے حصّوں کا قیاس اس ماحول میں کیا جاتا ہے جن کے بارے میں قانون طبیعیات کہتے ہیں کہ ان کو ستاروں کے اندر ہونا چاہئے -یہ ایک عظیم قدم ہے سائنسی طور پر - اس لئے نہیں کہ یہ ہمیں پیمائش کئے گئے ذرّات کا برتاؤ تجربہ گاہ میں بتاتے ہیں جن سے ہم مزید اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس طرح سے ستارے کام کرتے ہیں بلکہ اس لئے کہ اس دریافت نے فلکی طبیعیات کے نظری طریقہ کار کو مکمل طور پر بدل دیا۔ ایڈنگٹن اور بیتھ کا شکریہ کہ فلکی طبیعیات ایک تجرباتی سائنس بن گئی؛ اب یہ ممکن ہو گیا تھا کہ تصادم ہوتے ذرّات کے ساتھ یہاں زمین پر تجربات کرنے کا منصوبہ بنایا جا سکے جو ستاروں کے قلب میں ہونے والے نیوکلیائی عمل گداخت کے رازوں سے پردہ اٹھا سکیں۔ جب بیتھ کا سی این چکر (جیسا کہ اس وقت یہ تھا) پر پہلا مقالہ فزیکل ریویو (والیوم 55، صفحہ 434) میں 1939ء میں شایع ہوا تو اس نے کیلی فورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی کیلوگ ریڈیشن لیبارٹری میں نیوکلیائی طبیعیات دان کی ایک جماعت پر کافی گہرا اثر ڈالا۔
جدول 6.2 پی پی -زنجیر۔
وہاں پر ایک کہنہ مشق طبیعیات دان چارلس لورٹسن اور دو نوجوان، اس کے بیٹے تھامس اور ولی فولر کاربن اور نائٹروجن کے مرکزے پر پروٹون کی کرنوں کی بوچھاڑ کے تعاملات میں قطع کرنے والے حصّوں کی پیمائش میں مشغول تھے۔ بیتھ کے مقالے نے انہیں دکھایا کہ وہ تجربہ گاہ میں اس عمل پر تحقیق کر رہے تھے جو سورج اور ستاروں کے اندر چلتا ہے۔ چوالیس برس بعد اپنے خطاب میں فولر نے کہا ' اس نے ہم پر ہمیشہ رہنے والا اثر ڈالا'۔ حقیقت میں اثر اتنا زیادہ تھا کہ جب تجربہ گاہ 1946ء میں واپس بنیادی نیوکلیائی تعاملات پر کی گئی تو کہنہ مشق لورسٹسن نے فیصلہ کیا کہ صرف ان نیوکلیائی تعاملات پر اپنی توجہ کو مرکوزرکھے جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ ستاروں کے اندر چلتے ہیں۔ فولر نے للکار کو قبول کیا اور کالٹک میں ستارے کے کام کرنے کی تفتیش کا سربراہ بن گیا۔
فولر ایک جوشیلا درون کشف کردار تھا جو 1980ء کے عشرے میں تحقیق سرگرم طور پر مصروف رہا۔ 'میری نیت اس وقت تک سرگرم رہنے کی تھی جب تک مجھے وہ باہر نہیں نکال دیتے، ' اس نے یہ بات صحافیوں کو اس وقت بتائی جب اس کو نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ وہ 1911ء میں پٹزبرگ میں پیدا ہوا اور اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی میں طبیعیات کا علم حاصل کیا اور کیلی فورنیا میں منتقل ہونے سے پہلے 1933ء میں سند فضیلت حاصل کی اور 1936ء میں اپنی پی ایچ ڈی کی سند کالٹک میں حاصل کی۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ وہیں ٹکا رہا اگرچہ چند ماہ وہ دنیا کے دوسرے تحقیقی مراکز میں بھی کچھ وقت گزارتا پایا جاتا تھا۔ فولر اور کیلوگ لیب نے نجمی نیوکلیائی تالیف کے فہم میں ہونے والی پیش رفت اور بگ بینگ میں ٹھیک کس مقدار میں ہیلیئم کو پیدا ہونا چاہئے جیسے جدید حساب میں کافی اہم کردار ادا کیا۔ تاہم جیسا کہ فولر نے اپنے نوبل حاصل کرنے کے خطاب میں تسلیم کیا کہ ستاروں میں نیوکلیائی تالیف کا 'عظیم خیال' فریڈ ہوئیل (اب سر ہوئیل) کے دو مقالوں سے آیا جو 1946ء اور 1954ء میں شایع ہوئے تھے۔
تاریخیں با الخصوص ہوئیل کے لحاظ سے کافی اہم تھیں۔ جب فولر کا نوبل انعام کا اعلان ہوا تو کافی مقبول کام جن کی وجہ سے نوبل انعام ان کو دیا گیا اس میں ہوئیل کے کام کا ذکر تھا اور ان میں سے کچھ تو فوری طور پر اس ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں ستارے کے اندر عناصر کی تالیف کے طریقہ تلاش کیا جاتا ہے جو واضح طور پر ساکن حالت کے نظریے کے خالق کی ضرورت ہے۔ بہرحال اگر کوئی بگ بینگ نہیں ہوتا تو ساکن حالت کے حامیوں کو اپنے عناصر ستاروں کے اندر ہی بنانے ہوتے !کیونکہ ساکن حالت کا نظریہ اب رد کر دیا گیا ہے لہٰذا اطلاعات بتاتی ہیں کہ ہوئیل کو صحیح خیال غلط وجہ سے مل گیا - اور شاید یہی وجہ تھی کہ اس کو فولر کے ساتھ اعزاز میں شریک نہیں کیا۔ تاہم ساکن حالت نظریہ 'اس وقت تک نہیں آیا تھا' جب تک فولر کو 1948ء میں اعزاز سے نوازا گیا جیسا کہ فولر نے مجھے بتایا تھا جبکہ اس کا پہلا نیوکلیائی تالیف پر پہلا مقالہ 1945ء میں لکھا گیا اور 1946ء میں شایع ہوا۔
اور اس کے علاوہ بگ بینگ والے کسی بھی صورت بگ بینگ کے اندر ہیلئم سے زیادہ کوئی بھی بھاری عناصر نہیں بنا سکتے تھے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں