ایک مختصر سروے میں کہ کس طرح سے نیوکلیائی تالیف سمجھ لی گئی یہ ناگزیر تھا کہ باقی چیزیں یعنی کہ کاربن-12 کے بعد کی پیداوار کی سمجھ بوجھ میں اچانک سے کوئی رکاوٹ آ جائے اور وہ اس قدر آسانی سے سمجھ میں نہ آئیں جیسا کہ ہوئیل کے ساتھ فولر اور اس کے رفقائے کاروں نے مل کر پہلے ہی حاصل کر لی تھی۔ مختصراً اب یہ بات سمجھنا آسان ہو گئی تھی کہ کس طرح سے تمام عناصر ستاروں میں بنائے جاتے ہیں۔ الفا ذرّات(ہیلیئم کے مرکزے ) کو مرکزے میں جمع کیا جاتا ہے جو اس کی کمیت کو چار گنا فی اکائی ایک وقت میں بڑھا دیتا ہے ؛ انحطاط پذیر ہوتا ہوا الیکٹران، پوزیٹران یا نیوٹران کو خارج کرتا ہے اور اس کے بعد دوسرے عناصر یا ہم جا بناتا ہے۔ بہت بھاری عناصر (لوہے سے بھاری) بھی بہت اہم ہیں جو انفرادی نیوٹران کو قید کر کے مرکزے کی کمیت کو ایک وقت میں ایک گنا بڑھاتے ہیں۔ تاہم اب کوئی تھکا دینے والی کھائی نہیں ہے جس کے بارے میں اس طرح سے پریشان ہوا جائے جس طرح کا فلکی طبیعیات دان کاربن-12 کو الفا ذرّات سے بننے کے دوران سامنا ہوا تھا۔ باقی تو جان سوز محنت کا سوال تھا جس میں تمام ضروری قاطع حصّوں اور رد عمل کی شرح کی مفصل پیمائش تھی اور ستارے کے اندر ان اندازہ لگائے گئے تخمینہ جاتی درجہ حرارت اور دباؤ کی شرائط کو بٹھانا تھا اور نجمی طیف پیما سے عناصر کی فراوانی کا استخراج کرنا تھا۔
قاطع حصّوں کی پیمائش اپنی ذات میں خود سے کوئی چھوٹا کام نہیں تھا، ان کا قیاس تجربہ گاہ میں اسراع گروں میں تصادمی حالات کی اضافی بلند توانائی سے ستاروں کے اندر کہیں زیادہ پست توانائی والے تصادمی حالات میں ذرّات کے درمیان کرنے میں زبردست مہارت کی ضرورت تھی؛ اور مشاہدہ کرنے والے اس بات پر مجبور تھے کہ ہر صورت میں معلوم کریں کہ کائنات کی اجزائے ترکیبی کیا ہے۔ تاہم سب کچھ ایک ساتھ 1950ء کے عشرے کے وسط میں آ گیا۔ فولر نے تدریسی برس 1954ء - 1955ء کیمبرج میں گزارا جہاں اس نے ہوئیل اور انگلستانی فلکیات دان جوڑے مارگریٹ اور جیفری بربج کے ساتھ کام کیا۔ یہ تعاون فولر کے کالٹک واپس آنے کے بعد بھی طویل عرصے تک جاری رہا اب ہوئیل اور بربجز (کبھی کبار تینوں ) کیلوگ لیب کا باری باری دورہ کرتے۔ 1956ء میں فلکیات دان ہنس سوس اور ہیرالڈ یوری نے اس وقت تک کے سب سے بہترین اعداد و شمار قدرتی طور پر پائے جانے والے تمام عناصر کی اضافی فراوانی سے متعلق شایع کئے ؛ اسی برس، چاروں شراکت داروں نے ایک سائنس میں ایک مختصر مقالہ عناصر کے ماخذ پر لکھا، اور 1957ء میں انہوں نے اس کے بعد ایک اور مقالہ ریویو آف ماڈرن فزکس پر لکھا جو ابھی تک سائنسی مقالوں میں سے ایک مستند مقالہ ہے۔ حرفی ترتیب کے حوالے سے مقالہ پر دستخط ؛بربج، بربج، فولر اور ہوئیل' ہوئے، جو تمام فلکیات دانوں میں سادے طور پر 'B2FH' سے جانا جاتا ہے اور جب اس کا حوالہ دیا جاتا ہے تو کسی مزید حوالے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مقالہ بتاتا ہے کہ کس طرح سے تمام قدرتی طور پر پائے جانے والے متنوع فیہ مرکزے سوائے ہائیڈروجن اور ہیلیئم کے ستاروں کے اندر بنتے ہیں - اور سویڈش اکیڈمی آف سائنسز نے جب فولر کو نوبل انعام دیا تو ان الفاظ میں اس کے مقالے کا ذکر کیا 'یہ مقالہ اب بھی اس میدان میں ہمارے علم کی بنیاد ہے اور نیوکلیائی طبیعیات اور خلائی تحقیق میں ہونے والی مزید حالیہ پیش رفت نے اس کی صحت کی مزید تصدیق کی ہے '۔ ذاتی طور پر مجھے اب بھی وہ سنسنی خیز لمحات یاد ہیں جب میں نے پہلی مرتبہ بطور سند یافتہ طالبعلم کے اس مقالے کا سامنا کیا، اس بات کو جان کر میں کانپ گیا کہ میں نے جو مقالہ تھاما ہوا ہے اس میں موجود مساوات بیان کرتی ہے کہ میرے اپنے جسم میں موجود تمام جوہر (بجز قدیمی ہائیڈروجن کے ) کہاں سے آئے اور کس طرح سے یہ تمام جوہر ستاروں میں پکے۔ جیسے کہ کوئی بھی سائنسی تفتیشی مثال کر سکتی ہے، اس مقالے نے نا صرف سائنس بلکہ فلسفے کے ایک اہم معمے کا مکمل جواب دے کر ایک تحقیق کا باب بند کر دیا، ایک ایسا جواب جس نے ہوئیل اور اس کے شراکت داروں کو اس وقت سے دس برس کے سفر پر چلایا جب سے اس نے اپنا پہلا مشہور زمانہ مقالہ اس موضوع پر لکھا تھا۔
B2FH مقالے نے نجمی نیوکلیائی تالیف کے باب کو تو بند کر دیا تھا۔ تاہم اس نے تمام نیوکلیائی تالیف کے باب کو مکمل نہیں کیا تھا۔ 70 سے 75 فیصد ہائیڈروجن اور 25 سے 30 فیصد ہیلیئم سے کائنات میں پہلی نسل کے ستاروں کی شروعات ہوئی تھی، فلکی طبیعیات دانوں نے بتا دیا کہ کس طرح بھاری عناصر بنے، اور اس کے بعد وہ گمان کر سکتے ہیں کہ یہ بھاری عناصر پورے خلاء میں کچھ پرانے ستاروں کے پھٹنے کے ساتھ بطور نووا یا سپرنووا کے پھیل گئے ہوں گے تاکہ اس نجمی گیس کو زرخیز کر سکیں جس سے بعد میں ستارے بنے۔ ہمارا اپنی سورج نسبتاً نوجوان ہے ؛ اس میں لمبے عرصے پہلے مردہ ہوئے پرانے ستاروں کا باز یافتہ مادّہ موجود ہے اور یہیں سے اس کے وہ 2 فیصد بھاری عناصر اور مادّہ آئے ہیں جس سے زمین اور ہم بنے ہیں۔ آپ کے وزن کا پینسٹھ فیصد آکسیجن، 18 فیصد کاربن ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں