Alpha Rays
(الفا ریز)
تابکاری کی دریافت سائنس کی دنیا میں انقلابی تبدیلیاں لائی ہے اور اس دریافت کی کہانی بھی خاصی دلچسپ اور عجیب ہے. تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ایک روز ایک فرانسیسی طبیعیات دان انتواں ہنری بیکرل (Antonie Henri Becquera) اپنی تجربہ گاہ میں یورینیم کے نمکیات کے سورج کی روشنی میں دہکنے یا ’’چمکنے‘‘ کے عمل کا مطالعہ کر رہا تھا۔ اس سے ایک سال قبل ہی ایکس ریز دریافت ہو چکی تھیں۔ اسے گمان گزرا کہ کہیں چمکنے کے اس عمل میں بھی ایکس ریز ہی نہ خارج ہوتی ہوں چنانچہ اس نے یورینیم کے نمل کو سورج کی روشنی میں رکھ کر اس کے نزدیک ہی نہایت احتیاط اس سے ایک ملفوف (wrapped) فوٹوگرافک پلیٹ رکھ دی اور پھر اس کے گمان کے عین مطابق فونوگرافک پلیٹ ملفوف ہونے کے باوجود دھندلا گئی۔ اب اس نے ایک تاریک دراز میں یورینیم کے کچھ مرکبات رکھے اور نزدیک ہی باہر کچھ ملفوف پلیٹیں رکھ دیں۔ پھر جب اس نے فوٹوگرافی کی ان پلیٹوں کو ڈیویلپ (Develop) کیا تو ان پر بھی دھندلاہٹ آگئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یورینیم سے کچھ غیرمرئی شعاعیں خارج ہوتی ہیں اور سورج کی روشنی میں رکھنے یا نہ رکھنے سے انہیں کوئی اثر نہیں پڑتا۔ مزید یہ کہ یہ شعاعیں ایکس ریز کی طرح عام روشنی کی شعاعوں کی نسبت زیادہ دخولیات (Penetrating ) کی قوت رکھتی ہیں۔
1899ء میں بیکرل اور دوسرے لوگوں نے محسوس کیا کہ مقناطیس کی مدد سے یورینیم کی کچھ شعاعوں کو کسی خاص سمت میں موڑا جا سکتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ یورینیم سے نکلنے والی شعاعوں کی کم از کم دو قسمیں تو ہیں۔ اب چونکہ ان کی اصلیت کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا اس لئے آسانی کی خاطر ان کواے (A) اور بی (B) کہا جانے لگا۔ پھر نیوزی لینڈ میں پیدا ہونے والے ایک برطانوی طبیعیات دان رتھرفورڈ نے اس میں ذراسی تبدیلی اس طرح سے کی کہ اے اور بی کے بجائے یونانی زبان میں ان حروف تہجی کے متبادل الفا (α) اور بیٹا (β) کے حروف لے آیا۔ یوں ان کا نام الفاریز (Alpha rays) اور بیٹا ریز(Beta rays) پڑ گیا۔
1900ء میں ایک فرانسیسی طبیعیات دان پی ویلارڈ (P.Villard) نے یورینیم سے نکلنے والی ایک نئی قسم کی شعاعیں دریافت کیں جو دخولیت کی بھی خاصی قوت رکھتی تھیں۔ ان کا نام آپ سے آپ (gamma rays) پڑ گیا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بھی رتھرفورڈ ہی نے رکھا ہو۔ گیما (γ)یونانی حروف تہجی کا تیسرا حرف ہے۔
پھر اسی سال فرانس کے پیئر کیوری اور میری کیوری (میاں بیوی) نے بتایا کہ بیٹا ریز دراصل انتہائی تیز رفتاری سے حرکت کرنے والے الیکٹران ہیں۔ نیز 1909ء تک رتھرفورڈ یہ بھی ثابت کرچکا تھا کہ الفا ریز بھی تیزی سے حرکت کرنے والے نسبتاً بھاری ذرات ہیں۔ ان میں سے ہر ذرہ دو نیوٹرانوں اور دو پروٹانوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے آج تیزرفتار الیکٹرانوں کو بیٹا ذرات اور تیزرفتاردو نیوٹرانی دو پروٹانی مجموعے کو الفا ذرات کہا جاتا ہے۔ گیماریز البتہ ذرات پر مشتمل نہیں ہوتیں بلکہ یہ اپنی اصلیت میں ایکس ریز سے مشابہ لیکن ان سے زیادہ توانائی کی حامل ہوتی ہیں، اسی لئے ان میں دخولیت کی زیادہ قوت ہوتی ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں