Anatomy
(اناٹومی)
فرانسیسی ماہر موجودات (Naturalist) جورجز کیووئیر نے اناٹومی (علم تشریح الاعضا) کے تقابلی مطالعے کی بنیاد رکھی تھی۔ اناٹومی، دراصل سائنس کی وہ شاخ ہے جس میں کسی جاندار کی جسمانی ساخت کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور کسی جاندار کی جسمانی ساخت کے صحیح طور پر مطالعے کے لئے اس کے جسم کی بڑی احتیاط سے چیر پھاڑ کرنی پڑتی ہے تاکہ اس کے جسم کے اندرونی نظام کا بغور مطالعہ کیا جا سکے۔ چنانچہ یونانی زبان کے "ana" (اندرونی) اور" temnein" (قطع کرنا) کے ملنے سے anatomy کا لفط بنا ہے، جس کے معنی ہیں "اندرونی طور ہر قطع کرنا"۔
اناٹومی کے تقابلی مطالعے سے مراد ایسا مطالعہ ہے جس میں ایک جاندار کی اناٹومی کا دوسرے جاندار کی اناٹومی سے تقابل کرایا جاتا ہے، تاکہ ان کے درمیان تعلقات کا پتا چل سکے۔ کیووئیر نے تو موجود جاندراوں کا معدوم جانداروں کے رکازی باقیات سے بھی تقابل کرایا اواس طریقے سے اس نے یہ نظریہ قائم کیا کہ کسی زمانے میں آج کے معدومی جانداروں کے سلسے موجود تھے۔ ایسے کسی سلسلے میں ہر جاندار اپنے سے پہلے جاندار سے تھوڑاسا مختلف ہوتا تھا۔ اس سے اُس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ زمین کی تاریخ میں مختلف اوقات میں وقتاً فوقتاً ایسی اچانک تبدیلیاں ضرور آتی ہوں گی جس کے نتیجے میں زمین پر سے تمام جاندار یکسر ختم ہوجاتے ہوں گے۔ ایسی ہر تبدیلی کے بعد جو نئے جاندار جنم لیتے ہوں گے وہ پہلے والوں سے کسی حد تک مختلف ہوتے ہوں گے۔
اس کے برعکس کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ زندگی ایک مسلسل عمل ہے اور اس میں اس قسم کا کوئی انقطاع پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ ہوتا یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہر جاندار میں بڑی سست روی سے ایسی کچھ تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں جانداروں کی ایک نئی اور مختلف نوع جنم لیتی ہے۔ اس لحاظ سے زندگی ایک لپٹے ہوئے مکتوب کی مانند ہے کہ جب یہ گھومتے ہوئے بتدریج کھلتا جاتا ہے تو اس پر نئی اور مزید نئی اقسام کی زندگی نمودار ہوئی جاتی ہے۔ حتی کہ نہایت سادہ جانداروں سے شروع ہونے والے اس عمل کے نتیجے میں پیچیدہ قسم کے تمام جاندار بھی معرض وجود میں آ جاتے ہیں. جبکہ پیچیدہ جانداروں کی کچھ اقسام ایسی بھی ہوتی ہیں جو بظاہر ہونے کے بعد بھی معدوم ہو جاتی ہیں۔ اس نظریے کو evolution (ارتقاء) کے نظریے کا نام دیا گیا۔ یہ لفظ لاطینی کے سابقے "-e" اورTo roll "volvere کے ملنے سے بنا ہے- دوسرے لفظوں میں اس کے معنی ایک "rolling out" (لاطینی میں "evoluation") ہے۔
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انگریز ماہر موجودات چارلس روبرٹ ڈارون، ارتقاء کا نظریہ پیش کرنے والا پہلا شخص تھا۔ لیکن حقیقت میں یہ بات صحیح نہیں ہے۔ البتہ اس شخص نے ارتقاء کے حق میں مختلف ذرائع سے بہت زیادہ ثبوت فراہم کر کے 1859ء میں نہایت شاندار کتاب ضرور شائع کر وائی تھی۔ اس کتاب کا نام "The Orgin of Species" تھا اور اشاعت کے پہلے ہی دن اس کی تمام کاپیاں بک گئی تھی اسی بنا پر بعض اوقات اسے اس نظریے کا خالق بھی خیال کیا جاتا ہے۔
پھر اس واقعے کے بعد ایک نسل ہی گزری ہوگی کہ ماہرینِ حیاتیات نے پہلی مرتبہ تبدیلی کا ایسا طریقہ جان لیا جس کے ذرایعے جد اور آل کے درمیان فرق پیدا کیا جا سکتا تھا اور اسی کے نتیجے میں ارتقاء (Evolution) کا عمل ظہور میں آسکتا ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں