ولسن کا پس منظر پنزیاس سے بالکل ہی مختلف تھا۔ وہ ہوسٹن، ٹیکساس میں 1936ء کو پیدا ہوا، وہ ایک کیمیائی انجنیئر کا بیٹا تھا اور اس کے دونوں والدین تعلیم یافتہ تھے۔ رائس یونیورسٹی، ہوسٹن میں تمام سائنسی مضامین میں اس نے سیدھے اوّل درجہ حاصل کئے، جب ولسن نے 1957ء میں سند حاصل کی تو اس کو ایم آئی ٹی اور کالٹک دونوں کے سند دینے والے اسکولوں سے نوکری کی پیش کش ہوئی، یہ یو ایس میں دونوں ہی سائنسی تحقیق کے بہترین ادارے ہیں ؛ اس نے کالٹک پسند کیا، تاہم اس کو یہ بات واضح نہیں تھی کہ وہ تحقیق میں کون سا شعبہ لے گا۔ یہاں پر وہ دو برطانوی فلکیات دانوں سے متاثر ہوا - ان میں سے ایک فریڈ ہوئیل تھا جو علم فلکیات کو کالٹک میں بطور گشتی پروفیسر کے پڑھاتا تھا، اور جس کی پیش کش نے ولسن کو ساکن کائنات کے نظریئے کا گرویدہ بنا دیا تھا؛ دوسرا ڈیوہرسٹ تھا جس نے تجویز کیا کہ اس وقت کالٹک میں موجود ریڈیائی فلکیات دان جان بولٹن کے ساتھ ولسن کام کرے۔ اس طرح سے ولسن نے بولٹن کے ساتھ ملکی وے کے ریڈیائی سروے کے لئے کام کیا اور ہماری کہکشاں میں موجود ہائیڈروجن گیس کے بادلوں کا نقشہ بنایا۔ نتیجہ دنیا کو ہلا دینے والا تو نہیں تھا، نقشہ بن گیا اور اسی طرح کے ایک اور آسٹریلیا میں موجود جماعت کے بنائے ہوئے نقشے کی تصدیق کی۔ ولسن پنزیاس کی طرح اپنے پہلے منصوبہ کے معیار کے لئے ہمیشہ ناپسندیدگی ظاہر کرتا رہا: 'سچی بات تو یہ ہے کہ میں مقالے کے بارے میں کچھ زیادہ سائنسی بات نہیں سوچتا، اگرچہ سیکھنے کے لئے اچھا تجربہ تھا اور مجھے اس بات کا موقع ملا کہ میں دنیا کے زیادہ تر ریڈیائی فلکیات دانوں سے ملاقات کروں جو کالٹک کا دورہ کرنے آتے تھے۔ '(برنسٹین، صفر سے اوپر تین درجے۔ ) پنزیاس نے کولمبیا کو اپنی پی ایچ ڈی کو مکمل ہونے سے کچھ عرصے پہلے ہی چھوڑ دیا تھا، تاہم ولسن نے اپنی پی ایچ ڈی کو 1962ء میں مکمل کیا اور ایک برس تک کالٹک میں ہی رکا رہا۔ لہٰذا یہ 1963ء میں ہی ہوا تھا کہ اس نے بیل لیبز میں ریڈیائی فلکیات اور کراوفورڈ ہل میں دستیاب نسبتاً نئے شاخ دار انٹینے کے بارے میں سنا، لہٰذا اس نے موقع کا فائدہ اٹھانا چاہا اور پنزیاس کے پاس نیو جرسی چلا آیا۔
انٹینے کو ایکو سلسلے کے سیارچوں کے ساتھ کام کرنے کے لئے رکھا گیا۔ یہ سادہ طور پر بڑے دھاتی غباروں کی طرح تھے جن کو مدار میں پھلا دیا گیا تھا اور دنیا میں ریڈیائی اشارے نشر کرنے میں استعمال ہوتے تھے۔ ان کے اپنے کوئی افزوں گر موجود نہیں تھے، تاہم یہ آسمان میں آئینوں کی طرح کام کرتے تھے، لہٰذا اشارے جب زمین تک پہنچتے تو وہ کافی کمزور ہو چکے ہوتے تھے اور ان کو پکڑنے کے لئے کسی کام میں لانے کے لئے اچھے اور افزوں انٹینے کے نظام کی ضرورت ہوتی تھی۔ سرگرم مواصلاتی سیارچوں کی آمد کے ساتھ ہی - ٹیلسٹار اور اس کے جانشین جو زمین سے حاصل ہونے والے اشاروں کو واپس نشر ہونے سے پہلے افزودہ کر کے واپس زمین پر بھیجتے تھے - کراوفورڈ ہل کے انٹینا کا کردار ختم ہو گیا تھا، لہٰذا پنزیاس اور ولسن کو اس بات کی اجازت مل گئی تھی کہ ابلاغی وصول کنندہ کو نکال کر انٹینے کو ریڈیائی دوربین میں استعمال کر سکیں۔ اس میں کئی ماہ لگ گئے۔ وہ چاہتے تھے کہ نیا وصول کنندہ جس حد تک ممکن ہو سکے اتنا حساس ہونا چاہئے تاکہ وہ کسی طرح سے بہت ہی کمزور فلکیاتی ریڈیائی شور کا سراغ لگا سکے۔ لہٰذا اس کام کے لئے انھوں نے جس حد تک ممکن ہو سکا خلاء سے ریڈیائی امواج کو افزودہ کرنے کے لئے استعمال ہونے والے برقی نظام میں تمام ممکنہ شور کو ختم کر دیا۔ یہ شور کچھ اس طرح کا ساکن ہوتا ہے جیسے جب آپ اے ایم ریڈیو لگاتے ہیں تو سنتے ہیں ؛ پس منظر کی کے کچھ شور آوارہ ریڈیائی امواج ( بشمول خلاء سے آنے والی ریڈیائی امواج) کا ہوتا ہے تاہم اس میں سے کچھ ریڈیو کے وصول کنندہ کے عدم استعداد کی بدولت بھی ہوتا ہے۔ ساکن یا پس منظر کے شور کو درجہ حرارت کی صورت میں ناپا جا سکتا ہے، اور وہ انجینئرز جو کراوفورڈ ہل کے انٹینے پر ایکو سیارچے کی جانچ کر رہے تھے انہوں نے دیکھا کہ نظام میں ساکن ان کی توقع سے کہیں زیادہ ہے۔ حقیقت میں انٹینا بہت گرم تھا، 1961ء میں بیل سسٹمز ٹیکنیکل جریدے میں ایک شایع ہونے والے مضمون میں انجینئرز میں سے ایک ای اے اوہم نے ہر اس چیز کو نکال دینے کے بعد جس کو وہ بیان کر سکتا تھا شور کا بتایا، یہ شور درجہ حرارت 3 کیلون کے قریب تھا۔ یہ اس قدر نہیں تھا کہ ایکو مواصلاتی نظام میں کوئی گڑبڑ پیدا کرتا لہٰذا انجینئرز اس بارے میں کچھ زیادہ پریشان نہیں تھے۔ تاہم یہ ایک ایسی چیز تھی جسے پنزیاس اور ولسن کو حل کر کے نکالنا تھا یا کم از کم اس کی اس سے پہلے کہ وہ ریڈیائی فلکی تحقیق کو شروع کرتے اس کی شناخت ہو جاتی۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں