معیاری نمونہ - اسٹینڈرڈ ماڈل
ہم ایک پھیلتی ہوئی کائنات میں رہتے ہیں جو یکساں طور پر بہت ہی کمزور برقی مقناطیسی اشعاع سے بھری ہوئی ہے اور اس میں مادّے کے نقطے دار ڈھیر یکساں طور پر (بڑے پیمانے پر) اس کے گھیرے میں موجود ہیں۔ اس چیز کو تلاش کرنا کہ بہت طویل عرصے پہلے کس قسم کی صورتحال رہی ہوگی، ہمیں وقت کے پہیے کو پیچھے گھمانا ہوگا تاکہ کائنات کا حاصل کردہ نمونہ حاصل ہو جائے۔ سکڑاؤ کا اثر نمونہ کائنات کی کثافت کو بڑھا دیتا ہے۔ مادّہ کی کثافت اس لئے بڑھے گی کیونکہ وہی مادّہ وقت کے پیچھے ہونے کے ساتھ سکڑ کر چھوٹی جگہ میں سما جائے گا اور اشعاع کی کمیت بھی بڑھے گی۔ بڑھتی ہوئی اشعاع کی کثافت نیلی منتقلی ظاہر کرے گی، اشعاع کی مختصر طول موج اور اس کو درجہ حرارت میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے، دور حاضر کی 3 کیلون سے شروع کرکے جیسے جیسے وقت میں پیچھے جائیں گے ویسے ویسے یہ گرم ہوتی جائے گی۔
یہاں سے میں کائنات کے معیاری نمونے کو بیان کرنا شروع کروں گا، دور حاضر کا ماہرین تکوینیات کے درمیان 'سب سے بہترین قابل قبول نمونہ' جیسا کہ یہ کائنات کی اصل توجیح ہو۔ یہ ضروری ہے یہ کہانی کی روانی کو اس وقت بہت زیادہ متاثر کر سکتا ہے اگر میں آپ کو بہت زیادہ اس بات سے خبردار کروں کہ یہ کس طرح سے اس کائنات کی سب سے بہترین تشریح ہے جو ہمارے پاس موجود ہے، تاہم اس طرح کی نئی پیش رفت اس پر سبقت لے جا سکتی ہیں۔ اگر نمونے پر مناسب طور سے کام کرکے اس کو مساوات کی صورت میں بیان کریں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ نمونے کی ارتقاء ہوتے ہوئے کیا ہوا ہوگا۔ وہ اہم بات کہ معیاری نمونے میں کس چیز کو وقوع پذیر ہونا چاہئے اسی طرح سے لگتی ہے کہ ہم اپنے ارد گرد کائنات میں چلنے والے واقعات کو دیکھیں، لہٰذا معیاری نمونہ ایک اچھی مثال ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ کچھ چیزیں لازمی طور پر معیاری نمونے میں وقوع پذیر ہوئی ہوں گی تاہم ان کو ہم براہ راست کائنات میں نہیں دیکھ سکتے، اس کے علاوہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اصل کائنات ان جگہوں یا ادوار میں کیسی رہی ہوگی جن کا ہم براہ راست مشاہدہ نہیں کر سکتے۔ تاہم نمونہ یہ کبھی نہیں بتا سکتا کہ اصل کائنات میں کیا ہونا چاہئے۔ میں کہانی کو صرف ایسے بیان کر سکتا ہوں جیسے کہ یہ ہماری کائنات کی تاریخ ہے، یعنی کہ بیان کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کو متصل ہونے کے انداز میں یا منطقی طور پر بیان کیا جائے۔ تاہم اپنے دماغ میں یہ بات بٹھا لیں کہ یہ کہانی اصل میں کائنات کے ریاضیاتی نمونے کی کہانی ہے، ایک ایسی کہانی جو ہماری آج کی کائنات سے زبردست مشابہت رکھتی ہے اسی لئے ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا استعمال کرکے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ طویل عرصے پہلے جب کائنات نوجوان تھی تو اس وقت کیا ہوا ہوگا۔
وقت میں پیچھے جھانک کر اس دور میں دیکھا جا سکتا ہے جب کائناتی نمونہ پچکا ہوا تھا کیونکہ اس کا حالیہ پھیلاؤ وقت میں الٹ ہو رہا ہوگا۔ اگر یہ پچکا ہوا نمونہ مزید لمبے عرصے تک چلتا رہے تو قوانین طبیعیات ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم ایک ایسے نقطے پر پہنچ جائیں گے جب مادّے اور اشعاع دونوں کی کمیت لامتناہی ہو جائے گی۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ قوانین طبیعیات جن کو ہم زمین پر ہونے والے تجربات اور موجودہ کائنات کے مشاہدے سے جانتے ہیں وہ مادّے اور توانائی کی لامتناہی کثافت کو بیان کرنے کے لئے ناکافی ہیں اور ان کو لازمی طور پر تخلیق کے لمحے کے اس تصوراتی سفر پر جاتے ہوئے ٹوٹنا ہوگا۔ تاہم اگر فی الوقت ہم اس کو چھوڑ دیں تو خود تخلیق کے پہلے سیکنڈ کے کچھ حصّے میں ہونے والے معمے کو ہماری پھیلتی ہوئی کائنات کے مشاہدے اس قابل ہیں کہ بتا سکیں کہ تخلیق آج سے 10 سے 20 ارب برسوں کے درمیان ہوئی ہوگی۔ گفتگو کے لئے ہم عمر کے تخمینے کا درمیان لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آج سے 15 ارب برس پہلے وقت t = 0 تھا جب کائنات ایک حد درجہ بلند کثافت اور بہت ہی بلند درجہ حرارت کی حالت میں وجود میں آئی تھی اور ہم کائنات کے ارتقاء کو دور حاضر تک اس وقت میں بیان کر سکتے ہیں جو t = 0 سے لے کر اب تک گزرا ہے۔ ایسے کرنے کے لئے ہمیں اپنے تصور میں حال سے لامحدود توانائی کی کثافت کے اس وقت کے قریب تر جہاں تک پہنچا جا سکتا ہے وقت کا پہیہ گھمانا پڑے گا اور پھر ارتقاء پذیر کائنات کے ساتھ وقت کو آگے بڑھانے کے لئے تصور کرنا پڑے گا۔ لہٰذا شروع کرنے کے لئے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم دور حاضر کی کائنات کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں