سب سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ یہ پھیل رہی ہے۔ دوسرے ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کچھ 25 فیصد تک کا مادّہ ستاروں میں ہیلیئم کی صورت میں جبکہ باقی مادّہ ہائیڈروجن کی صورت میں موجود ہے۔ تیسرے ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ کائنات 3 کیلون کے درجہ حرارت کی اشعاع سے لبریز ہے۔ فوٹون، وہ ذرّات جو برقی مقناطیسی اشعاع کی نمائندگی کرتے ہیں، کی صورت میں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کے ہر مکعب سینٹی میٹر میں 1,000 فوٹون موجود ہیں، اور یہ لگ بھگ کائنات میں موجود تمام پروٹون اور نیوٹران کو جمع کرنے کے بعد بھی ان سے ایک ارب گنا زیادہ ہیں، مشاہدہ جو بات تجویز کرتا ہے اسی کو فرض کرتے ہوئے روزمرہ کے مادّے کی کمیت لگ بھگ وہی ہی جو کھلی اور بند حالت کے درمیان آس پاس کسی جگہ پر ایک چپٹی کائنات کے لئے درکار ہے۔ ان اشعاع کی توانائی لگ بھگ کائنات میں پائے جانے والے نظر آنے والے مادّے کے مقابلے میں 1/4,000 کی ہے جو ہمیں E= mc^2 سے ملتی ہے۔ آج کائنات میں مادّے کا غلبہ ہے - تاہم ایسا ہمیشہ نہیں تھا۔
جب ہم وقت کے پہیے کو پیچھے کی طرف گھماتے ہیں تو ہم سادہ قوانین طبیعیات کا استعمال کرتے ہوئے حساب لگا سکتے ہیں کہ کائنات کے سکڑنے کے ساتھ اشعاع کا درجہ حرارت کس طرح سے بڑھتا ہے۔ ہر پروٹون یا نیوٹران میں مقید توانائی وہی رہے گی تاہم ہر فوٹون میں موجود توانائی اشعاع کے پچکنے کے ساتھ ہی بڑھ کر نیلی منتقلی کی جانب چلی جائے گی۔ جب درجہ حرارت لگ بھگ 4,000 کیلون کا ہوگا تو ہر فوٹون میں موجود توانائی ہر پروٹون یا نیوٹران میں موجود توانائی کا ایک اربواں حصّہ ہوگی اور کیونکہ کائنات میں فوٹون ایک ارب گنا زیادہ موجود ہیں لہٰذا اشعاع میں کل توانائی مادّے کی کل توانائی سے مل جاتی ہے۔ تمام بلند درجہ حرارتوں میں جو ابتدائی ادوار اور عظیم کثافت کے ساتھ تھے کائنات پر اشعاع کا غلبہ تھا اور مادّے کا کردار ثانوی تھا۔ لہٰذا بگ بینگ کے وقت کی صورتحال کو بنانے کے لئے ہمارے پاس کلیہ موجود ہے - ہم دور حاضر کے درجہ حرارت کو جانتے ہیں، ہر پروٹون یا نیوٹران کی نمائندگی کرنے والے فوٹون کی تعداد کتنی ہے اور وہ قانون جو ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح سے ماحول اس وقت تبدیل ہوتا ہے جب ہم وقت کے پہیے کو پیچھے کی طرف گھمانا شروع کرتے ہیں۔ ان قوانین کے سادہ ترین نسخے، فرائیڈ -لیمیترے کا سادہ علم کائنات اور دور حاضر میں پس منظر کی اشعاع کے بارے میں معلومات کے ساتھ ہمیں درست طور پر وہ ترکیب مل جاتی ہے جو 25 فیصد اصلی مادّے کو ہیلیئم میں کائنات کی ارتقاء کے چند منٹ کے اندر پکانے کے لئے درکار تھی۔
کائناتی آگ کا گولہ
کتنی دور تک - t = 0 سے کتنا قریب - ہم قوانین طبیعیات کو دھکیل سکتے ہیں کہ وہ ہمیں کائنات کی توجیح پیش کر سکیں؟ قدرتی طور پر مادّے کی عظیم تر کمیت دور حاضر میں جوہر کے مرکزے میں موجود ہوتی ہے جہاں پروٹون اور نیوٹران ایک دوسرے کے ارد گرد بندھے ہوئے ہم نشین ہوتے ہیں۔ نیوکلیائی تعاملات - پروٹون اور نیوٹران میں ہونے والے تعاملات- ہم اپنے متعلق دیکھے جانے والے کیمیائی عناصر کی بوقلمونی کے ذمہ دار ہوتے ہیں، اور اسی طرح کے رد عمل کی وجہ سے کائنات کی پیدائش کے بعد ہائیڈروجن اور ہیلیئم کی نسبت کا تعین ہو گیا جو پہلی نسل کے ستاروں میں بطور ایندھن کے استعمال ہوئے۔ بگ بینگ کا معیاری نمونہ ویگنر، فولر اور ہوئیل کے کام سے حاصل کیا گیا جو حساب لگاتا ہے کہ بگ بینگ میں کتنی ہیلیئم بن سکتی تھی اور یہ موثر طور پر کائنات کے ارتقاء کی کہانی کو اس وقت سے بیان کرتا ہے جب مادّے کی کمیت اتنی ہی تھی جتنی کہ مادّے کی کمیت آج جوہری مرکزے میں موجود ہے یا شاید اس سے تھوڑی سی کم۔ جس درجہ حرارت پر یہ وقوع پذیر ہوا تھا وہ لگ بھگ 10^12 کیلون (1,000 ارب کیلون) تھا، کثافت نیوکلیائی مادّے کی کثافت (10^14 گرام فی مکعب سینٹی میٹر) تھی، اور وقت t = 0 کے بعد کا 0.0001 (10^-4) سیکنڈ تھا۔
یہ حالات اس قدر شدید تھے کہ اس سے پہلے کہ ہم اس تفصیل کو دیکھیں کہ کس طرح سے کائنات اس حالت - بگ بینگ سے بذات خود - سے بنی ہمیں یہ متعلقہ قوانین طبیعیات کو یاد رکھنا ہوگا جو اس طرح کے شدید حالات کو بیان کرتے ہیں۔ ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ اشعاع کا بگ بینگ کے وقت اس سے کہیں زیادہ اہم کردار ادا کیا تھا جو وہ آج کی کائنات میں ادا کر رہی ہیں اور اس وجہ کو سمجھنا آسان ہے۔ اگر آپ کائنات کے ایسے نمونے کا تصور کریں جو وقت میں پیچھے جاتے ہوئے سکڑ رہا ہو تو بہت لمبے عرصے تک جوہروں کے مرکزوں کو تو چھوڑ دیں انفرادی جوہروں کو بھی کچھ نہیں ہوگا۔ کیونکہ کہکشائیں ایک دوسرے سے اس قدر فاصلے پر ہیں کہ سکڑ کر ان کو آپس میں رابطے میں آنے کے لئے ارب ہا برس درکار ہوں گے۔ اور اس کے بعد بھی سکڑاؤ کو اس قدر لمبا چلنا پڑے گا کہ انفرادی ستارے پچک کر ایک بے شکل کے ڈھیر میں جمع ہو جائیں۔ تاہم پس منظر کی اشعاع نے چاہئے صرف کمزور سے 3 کیلون کے درجہ حرارت کے ساتھ پوری کائنات کو بھرا ہوا ہے اور اس نے کائنات کو ہمیشہ سے بھرا رکھا ہے۔ جیسے ہی تصوراتی سکڑاؤ شروع ہوتا ہے اشعاع متاثر ہوتی ہیں اور اس کا درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوتا ہے۔ اس وقت تک جب ستارے بالآخر پچک کر اس قدر نزدیک ہو جائیں گے کہ انفرادی مرکزے اس کا اثر محسوس کرنے لگائیں گے تو ہر نقطہ پر خلاء میں اشعاع کی کثافت ایک ایسی جگہ پر بڑھ کر پہنچ جائے گی جہاں اس میں اس سے کہیں زیادہ توانائی موجود ہوگی جو ذرّات کے اندر ذخیرہ ہوئی ہے۔ اب یہ 'پس منظر' کی اشعاع نہیں ہوں گی بلکہ گرم کثیف کائنات کے طبیعیاتی عمل میں صف اول کا کردار ادا کر رہی ہوں گی۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں