تحریر :صادقہ خان
" زندگی کے جھمیلوں اور شب و روز کی تھکا دینے والی مسافتوں سے جان چھڑا کر کبھی آپ نے مکمل تنہائی میں اس کائنات کی بے کراں وسعتوں پر غور کیا ہے؟" ، آبادی سے دور کسی چٹیل میدان ، کسی اونچی چٹان پر بیٹھ کر آسمان پر جھلملاتے لاتعداد ستاروں کو دیکھ کر لمحے بھر کو آپ پر بھی ہیبت طاری ہوئی ہے؟ یقینا َََ ان لمحات میں عام آدمی سے لیکر سائنسدان اور ماہرِ فلکیات تک ہر کسی کے ذہن میں پہلا سوال یہی ابھرتا ہے کہ کیا ہم اس کائنات میں تنہا ہیں ؟ یا کہیں اور کسی سیارے پر انسان نما مخلوق (ایلینز)بھی بستے ہیں؟؟
سائنسدان اپنے اس سوال کا جواب تلاشنے میں کئی عشروں سے سر دیئے ہوئے ہیں کہ کیا زمین سے باہر زندگی ممکن ہے؟؟مگر پہلا سوال یہ ہےکہ سیارۂ زمین پر زندگی کیونکر وجود میں آئی ؟؟ اس ایک سوال نے سائنس میں تحقیق و جستجو کے اتنے در وا کیئے ہیں کہ فلکیات کی ایک نئی شاخ "ایسٹرو بایولوجی" فلکیاتی حیاتیات تشکیل پائی ، جو دراصل کیمیا، فلکیات، ارضیات اور طبعیات کا مرکب ہے۔
مگر زندگی کے آغاز اور پھر برس ہا برس کے ارتقاء پر غور کرنے سے پہلے سائنسدانوں کو زندگی کی ایک مکمل اور جامع تعریف کی ضرورت تھی کیونکہ سائنس کی ہر شاخ میں زندگی کو متعلقہ معنوں میں ہی بیان کیا جاتا ہے۔ سالہا سال کی گرما گرم بحثوں کے بعد بلا آخر محققین کی اکثریت "ناسا" کی بیان کردہ اس تعریف پر متفق ہوگئی ہےکہ" زندگی ایک خود رو مسلسل جاری رہنے والا عمل ہےجس میں صدیوں کے ارتقائی عوامل کارفرما ہیں ۔"جنھیں " بایو مالیکیولر عوامل" کہا جاتا ہے، جن کے ذریعے بنیادی عناصر وجود میں آئے۔ اس تحقیق میں ایک بڑا مسئلہ یہ حائل ہوا کہ ارضیاتی تبدیلیوں کے باعث وہ تمام نشانات معدوم ہوچکے ہیں جن سے زمین پر زندگی کی ابتداء اور ارتقاء کے متعلق معلومات حاصل ہوسکتی تھیں۔اگرچہ نامیاتی اور حیاتیاتی کیمیا ء میں روز افزوں تحقیق کے باعث آج سائنسدان ابتدائی سادہ خلیے کی ساخت سے واقف ہو چکے ہیں ، اور اکثریت اس امر پر متفق ہے کہ اسکی تشکیل میں غیر نامیاتی مرکبات جیسے امائنو ایسڈ اور نیوکلیو ٹائڈ کے ساتھ "اے بایوٹک فیکٹرز" ( لازمی اجزاء) سورج کی روشنی و حرارت، پانی ، مٹی اور ہوا نے بنیادی کردار ادا کیا۔
اس کے بعد دوسرا بڑا سوال جینیاتی مواد کے ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہونے کے بارے میں تھا ، جس کے لیئے اب " آراین اے" رائبو نیوکلیک ایسڈ کے نظریئے کو مصدقہ مانا جاچکا ہے۔ابتدائی ادوار میں جینیاتی مواد آر این اے کے ذریعے اگلی نسل میں منتقل ہوا ہوگا جس سے پہلے پہل سادہ جاندار ( مائیکرو ایوولیوشن) اور پھر بتدریج پیچیدہ جاندار ( میکرو ایوولیوشن) تخلیق ہوئے ۔ یعنی آج جو ہم سیارۂ زمین پر مختلف النوع جاندار دیکھتے ہیں وہ سب چار ارتقائی قوتوں ( ایوولیوشنری فورسز: میوٹیشن، رینڈم جینیٹک ڈرفٹ، نیچرل سیلیکشن اور جین فلو ) کی کرشمہ سازی ہے۔اگرچہ جینیاتی ارتقائی عوامل پر انیسویں صدی کے آغاز سے ہی کام جاری تھا اور اس سلسلے میں سب سے بڑی پیش رفت " آر اے فشر"، " ایس رائٹ" اور " جے بی ایس ہالڈین" کی تحقیق کے باعث ہوئی، جس کی بنیاد "جیمز ہیگزلے(1942) کی کتاب " ماڈرن ہائپو تھیسز" تھی، جس میں چارلس ڈارون کی قوانین ِ ارتقاء کی مکمل اور جامع وضاحت کی گئی تھی۔
سیارۂ زمین پر زندگی کی ابتدا سے متعلق تمام امور سے مکمل آگہی کے بعد سائنسدانوں نے اپنے اولین سوال کا جواب تلاشنے کے لیئے نظامِ شمسی اور اِس سے باہرایگزو پلینٹس(سیارچے،چھوٹی جسامت کی ایسے سیارے جو سورج کے علاوہ کسی اور ستارے کے گرد محوِ گردش ہوں)، پر تحقیق کا آغاز کیااور انکی توجہ کا مرکز ایسے سیارچے رہے جو اپنے ستارے( مرکز) کے ہیبی ٹیبل زون میں واقع ہوں۔ خلا میں ہیبی ٹیبل زون ایسے علاقے کو کہا جاتا ہے جہاں ناصرف مناسب روشنی اور حرارت دستیاب ہو بلکہ وافر مقدار میں آکسیجن اور مائع حالت میں پانی بھی ہو، اس کے علاوہ چند اور ماحولیاتی خصوصیات بھی زندگی کے وہاں پنپنے کے لیئے ضروری ہیں ۔
ماہرینِ فلکیات ایسے سیاروں کی تلاش کے لیئے عموماََ دو طریقے استعمال کرتے ہیں ، پہلا طریقۂ کار " ٹرانزٹ میتھڈ" یا "ما ئیکرو لینزنگ "کہلاتا ہے جس میں براہِ راست مشاہدہ ( ڈیٹیکشن ) کے ذریعے اس سیارے سے خارج ہونے والی روشنی کا عین اس وقت مشاہدہ کیا جاتا ہے جب وہ دورانِ گردش اپنے ستارے کے بلکل سامنے سے گزر رہا ہو، پھر طویل اور پیچیدہ حسابی اصولوں کے ذریعے اس کے ماس ، جسامت اور اندرونی خصو صیات جیسے ہوا، مٹی، چٹانوں اور ما حول کے بارے میں معلومات حاصل کی جاتی ہیں ۔ جبکہ دوسرے طریقۂ کار " ووبل میتھڈ" میں اس سیارے کے اپنے ستارے پر ثقلی اثرات ( گریوی ٹیشنل امپیکٹ) کا مشاہدہ کر کے قانون بقائے مومینٹم سے اس کی ماس معلوم کی جاتی ہےجو پہلے طریقۂ کار کی نسبت زیادہ سہل بھی ہے اور قابلِ اعتبار بھی۔
کسی بھی ستارے کے ہیبی ٹیبل زون میں واقع ایسے سیارے جہاں زندگی کی نمو اور نشونما کے واضح امکانات دریافت ہوجائیں ، فلکیات کی اصطلاح میں " سپر ارتھ" کہلاتے ہیں۔ ناسا کی بیان کردہ تعریف کے مطابق " ایسے سیارے جن کا ماس زمین کے ماس سے (10-1) کی نسبت رکھتا ہو اور ا ن کا رداس زمین کے رداس سے دو گنا ہو سپر ارتھ ہونگے۔ مگر قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ تمام سپر ارتھز مشابہہ سیاروں کا گروپ ہوں بلکہ انکی اپنی کچھ علیحدہ خصو صیات بھی ہو سکتی ہیں ۔ جیسے ہماری زمین کا ماحول قدرتی طور پر لائف سپورٹنگ( زندگی کے لیئے معاون) ہے، جہاں ایک جانب اوزون کی صورت میں سورج کی مضر صحت شعاؤں کو روکنے کی ڈھال دستیاب ہے تو دوسری جانب جینیاتی خصو صیات کو نسل در نسل منتقل کرنے کے لیئے وافر مقدار میں پانی بھی موجود ہے، جبکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ایک مسلسل رواں " سائیکل" ہے جو اس کے ماحول کو متوازن رکھتا ہے۔
امریکی خلائی ادارے ناسا نے 2009 میں ایسی سپر ارتھز کی تلاش کے سفر کا آغاز "کیپلرمشن" کے ذریعےایک مخصوص دوربین سے کیا تھا جس میں ٹرانزٹ طریقۂ کار سےایسے کئی سیارے دریافت کیئے گئے جو سپر ارتھ کی کیٹیگری میں آتے تھے،کیپلر 16ایف اب تک دریافت شدہ وہ واحد سیارہ تھا جو اپنے ستارے کے ہیبی ٹیبل زون کے اندر واقع ہے۔
اس سلسلے میں ایک اور بڑی پیش رفت 2015 میں" ٹریپسٹ ون" نامی ایک "ڈوارف ستارہ" (بونا ) کی دریافت سے ہوئی جو جسامت میں جیوپیٹر (مشتری) کے برابر ہے مگر اسکا ماس کافی زیادہ ہے۔ رواں برس فروری میں ناسا کی جانب سے اس اعلان نے ساری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی کہ سائنسدانوں نے اس ڈوارف ستارے کے گرد سات سیارچوں پر مشتمل ایک نیا نظامِ شمسی دریافت کیا ہے جو ہمارے اپنے نظامِ شمسی سے بہت حد تک مشابہہ ہے۔اگرچہ یہ سیارچے ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں مگر گردشی تعدد( ہارمونک فریکوئنسی) ہم آہنگ ہونے کے باعث یہ ایک دوسرے سے ٹکراتے نہیں بلکہ زمین ، مریخ، زہرہ، مشتری کی طرح ایک طویل عرصے تک قیام پزیر حالت میں محو ِ گردش رہ سکتے ہیں ۔ یہ نیا نظام شمسی زمین سے تقریباََ انتالیس نوری سال کے فاصلے پر ہے، جس کی دریافت میں ناسا کی "سپٹزر ٹیلی سکوپ" استعمال ہوئی ہے۔سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ان سات میں سے تین سیارے ایسے ہیں جہاں کا نا صرف اندرونی درجۂ حرارت زندگی کے لیئے معاون ہے بلکہ یہاں مائع حالت میں پانی بھی دستیاب ہے۔
"ہارورڈ سمتھ سونین انسٹی ٹیوٹ" کے شعبۂ فلکیاتی طبیعات ( ایسٹرو فزکس ) کے محققین آج کل " پینس پرمیا " نامی ایک نظریہ پر تحقیق کر رہے ہیں جس کے مطابق کسی سیارے سے " شہابیے" کے ٹکراؤ کے باعث اسکی مکمل یا جزوی تباہی کی صورت میں وہاں کی باقیات کے ساتھ بیکٹیریا خلا میں بکھر کر کسی دور دراز کے سیارے پر منتقل ہو سکتے ہیں ، عین ممکن ہے کہ زمین پر بھی زندگی کچھ اسی طرح نمو پائی ہو۔ عین ممکن ہے کہ نئے دریافت شدہ نظامِ شمسی میں بھی کبھی ہمارے جیسے انسان بستے ہوں اور وہاں سے بیکٹیریا کہیں اور منتقل ہوئے ہوں؟ ہر نئی تحقیق سوالات کی ایک نئی پٹاری کھول رہی ہے ۔
یہ سب تفصیلات یقینا ََ بہت دلچسپ اورحیران کن ہیں ، مگر عشروں پر محیط اس تحقیق کے با وجود آج بھی انسان اپنے اس اولین سوال کا جواب پانے سے قاصر ہے کہ کیا وہی اس وسیع کائنات کی واحد"ذہین" انٹیلیجنٹ مخلوق ہے؟
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں