ثقلی طور پر مقفل سیاروں پر زندگی کس طرح کی ہوگی؟
مثلاً ہم کس طرح سے اس طرح کے خطرناک ماحول میں رہیں گے؟ وہاں ماحول کس صورت میں ڈھلے گا؟ اگر ذی شعور نوع نمو پاتی ہے، تو ان کی تہذیب، اگر کوئی ہوئی، تو وہ دیکھنے میں کیسی ہوگی؟
جواب:آئن جانسٹن
اسٹیفن سلیپسکی، سابق نظری (ذرّاتی اور فلکی/کونیاتی)؛ اسٹینفورڈ پی ایچ ڈی، سرن، بی یو، ییل کے محقق نے اس جواب کو پسند کیا ہے۔
(سب سے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ ثقلی طور پر مقید ہونا کس چیز کو کہتے ہیں۔ جب کوئی دو اجسام ایک دوسرے سے اس قدر نزدیک ہوجائیں کہ ایک جسم پر دوسرے جسم کی ثقل غالب آجائے تو مقلوب جسم اپنی محوری گردش اس طرح کرلیتا ہے کہ اس کا ایک کرۂ ہمیشہ غالب جسم کے سامنے رہتا ہے۔ جیسے ہمارا چاند ہے جو زمین سے اتنا قریب ہے کہ ثقلی طور پر مقید ہوگیا ہے لہٰذا ہمیں زمین سے چاند کا ہمیشہ ایک ہی حصہ نظر آتا ہے۔ مترجم)
ایک ثقلی طور پر مقید سیارے عام طور پر سرخ بونے (سرخ بونا ایسے ستاروں کو کہتے ہیں جو سورج سے کمیت میں انتہائی چھوٹے ہوتے ہیں لیکن ان کی زندگی ہمارے پیمانے پر ابدیت پر مبنی ہوتی ہے یعنی ان کی حیات اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ کائنات کے بننے سے لے کر اب تک کوئی بھی سرخ بونا اپنی عمر پوری کرکے نہیں مرا ہوگا ۔ بلکہ ان میں سے زیادہ تر تو ابھی اپنے عہد طفل ہی سے نہیں گزرے ہوں گے۔ اگر آپ کائنات کی 13 ارب 75 کروڑ برس سے سرخ بونوں کی عمر کا موازنہ کریں تو یہ بہت زیادہ ہوتی ہے یعنی 50 ارب برسوں سے لے کر 150 ارب برس کے درمیان جس کا انحصار ان کی کمیت پر ہوتا ہے) کے نظام میں ہی پایا جاتا ہے، جو بالکل ہی الگ دنیا ہوتی ہے، تاہم میں اس کو بیان کروں گا۔
سب سے آسان جواب اصل میں چار حیاتیاتی خطوں کی صورت میں ہیں۔ زمین پر حیاتی خطے موجود ہوتے ہیں ، اور ہر حیاتی خطہ میں ایسی حیات ہے جو صرف وہاں کے حالات کے مطابق زندہ رہنے کے لئے مطابقت رکھتی ہے۔ ایک پینگوئن اب کسی صحرا میں نہیں رہ سکتی نہ ہے کوئی مچھلی شاہ رخ (امریکا کا بڑا گِدھ) کے ساتھ رہ سکتی ہے۔ یہ ثقلی مقفل سیارہ، جس کو میں آرتمیس (ایک قدیم یونانی دیوتا کے نام پر جس کا انتہائی تعظیم کی جاتی ہے) کا نام دوں گا، اس میں بھی حیاتی خطے ہوں گے، تاہم ان کی اہمیت ارتقاء کی ماہیت کے لئے سیارے کے چار حیاتی خطوں کے لئے ثانوی ہوگی۔ یہاں پر ایک ثقلی مقید، قابل رہائش سیارے کا فنکار کا تخیل موجود ہے:
سب سے پہلی چیز غور کرنے کی دن کی طرف طوفان کی موجودگی ہے۔ یہ پہلا حیاتی خطہ ہے: ٹائیفون (قدیم یونانیوں کے مطابق بگولوں کا دیوتا)۔ ٹائفون پر موجود طوفان ارب ہا برس سے موجود ہے۔ یہ ہمیشہ رہے گا۔ اس کی آنکھ آفتاب زدگی کے زیادہ سے زیادہ نقطہ پر مرکز بنائے گی، وہ نقطہ جہان پر سورج براہ راست سر پر موجود ہوگا۔ آنکھ، جو آسانی سے سینکڑوں میل پر پھیلی ہوگی، وہ خاموش، ہوا کے بغیر، سورج سے سوختہ صحرا ہوگی۔ یہاں کوئی بھی چیز زندہ نہیں رہ سکتی، وہ عملی طور پر ایسی زمین ہے جو وقت میں ٹھہر گئی ہے۔
اس آنکھ سے دور، ٹائیفون کا طوفانی علاقہ ہے۔ یہاں پر بارش ہونا کبھی بند نہیں ہوگی، لہٰذا یہاں مٹی نہیں ہوگی، صرف سمندر سے ابھری پہاڑوں کی نوکیلی چوٹیاں ہوں گی۔ یہاں پر سب سے نمایاں حیات پرندوں کی ہوگی، ضخیم مخلوق جو اڑنے سے زیادہ تیرتے ہوں گے۔ ان دیوہیکل پرندوں کے پروں کی چوڑائی کئی درجن فٹ چوڑی ہوگی، اتنی بڑی کہ خشکی کے آسمانوں پر اڑنے والا کوئی بھی بڑے سے بڑا جانور اس کے سامنے بونا لگے گا۔ ٹائیفون سے آتی ہوئی طاقت ور اوپری ہوا سے بلندی پر رکے ہوئے، گلائیڈر تیرتے ہوئے بادلوں کی چوٹی پر جاکر، دوسرے چھوٹے پرندے پکڑیں گے اور خود سے اپنے طور پر چھوٹے سے ماحولیاتی نظام کو سہارا دیں گے۔ کائی، کائی نما گھاس، اور دوسرے پودے جو نمی سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہاں نمو پائیں گے۔
دوسرا حیاتی خطہ دیمتر (ایک یونانی دیوتا کا نام جو زرخیزی اور شادی کی حفاظت کرنے سے جانا جاتا) ہے، وہ خطہ جہاں بالواسطہ آفتاب زدگی ہوتی ہے، جیسا کہ زیادہ تر ہماری دنیا میں ہوتا ہے۔ یہاں، سیارے کے دن جانب سے آنے والی ٹھنڈی ہوائیں درجہ حرارت کو گرم اور خوشگوار رکھیں گی۔ یہاں پر حیات زیادہ تر ہماری جیسی نظر آئی گی اور کارگر ہوگی، جہاں ٹائیفون سے قریب کے گرم علاقے صحراؤں اور منطقہ حارہ جیسے حیات رکھتے ہوں گے، اور وہ علاقے جو رات کی طرف سے قریب ہوں گے وہ لگ بھگ اسکینڈی نیویا اور شمالی کینیڈا جیسے ہوں گے۔
تیسرا حیاتی خطہ ایولس (قدیم یونانیوں کا ہواؤں کا دیوتا) ہے، مختتم یا شفق کا علاقہ۔ یہ ٹائیفون سے بھی زیادہ سیارے پر سب سے زیادہ ناخوشگوار علاقوں میں سے ایک ہوگا۔ پہلے کبھی ہم سمجھتے تھے کہ ثقلی مقید جہاں میں مختتم علاقہ سب سے مثالی ہوگا، نہ تو زیادہ گرم اور نہ زیادہ ٹھنڈا۔ اب ہمیں احساس ہوچکا ہے کہ سیارے کی اہم ہوائیں اس علاقے میں انڈیلی جارہی ہوں گی، کیونکہ دن سے آتی ہوئی ہوا ٹھنڈے رات کے علاقے میں پھیل رہی ہوگی، ایک نا ختم ہونے والی دن-تا-رات چلنے والی برفیلی باد صبا پورے شفق کے علاقے میں چل رہی ہوگی۔ یہاں پر پودوں کی حیات اس طرح سے ارتقاء پذیر ہوئی ہوگی کہ اس کی جڑیں کافی گہرائی میں ہوں گی جبکہ وہ خود مختصر ہوں گے، تاکہ نا صرف سخت، ناختم ہونے والی ہوا کو برداشت کرسکیں، بلکہ توانائی کا حد درجہ مؤثر استعمال کرسکیں، کیونکہ ان میں براہ راست پڑنے والی دھوپ کی کمی ہوگی۔ جانوروں کی زندگی بھی سخت ہوگی اور وہ چھوٹے ہوں گے، سطح پر رہنے کے بجائے ان کا بلوں میں رہنے کا امکان زیادہ ہوگا۔ وہ چھچوندر اور بلوں میں رہنے والے دوسرے ممالئے سے ملتے جلتے ہوں گے، ان پر پروں کی دبیز تہہ اور چربی چڑھی ہوگی تاکہ حرارت کو برقرار رکھ سکیں، اور بھاری وزن کے ہوں گے تاکہ اڑا دینے والی ہوا سے آسانی سے اڑ نہ جائیں۔
آخری خطہ سادہ ترین ہوگا: بوریس (قدیم یونانیوں کا شمالی ہوا کا دیوتا) ۔ یہاں حیات کا وجود گہرائی میں ہوگا، برف کی گہرائی میں، جراثیم کی آبادیاں کروڑوں، بلکہ ممکنہ طور پر ارب ہا برس پرانی ہوں گی، جو صرف چٹانوں اور پانی کے تعاملات سے زندہ رہ رہی ہوں گی، اور کیمیائی تعاملات سے توانائی حاصل کرکے اپنے آپ کو قائم رکھ رہی ہوں گی۔ برف کی تہہ میں آتش فشانوں کے دہانوں کے گرد زیر زمین سمندر موجود ہوگا، اور ہوسکتا ہے کہ وہ زمین سے ہی ملتے جلتے ہوں۔ لامتناہی رات کی سطح پر، مطلق طور پر کچھ بھی نہیں ہوگا۔ بغیر توانائی کے منبع، یا مائع پانی کے، یہاں پر سادہ طور پر غیر مختتم، باد زدہ (جو ہوا کی مار کھاۓ یا ہوا کے زور سے پیچھے کو جھک جاۓ) برف کے میدان، جو ارب ہا برسوں سے چلنے والی ہواؤں کی وجہ سے مکمل طور پر ہموار ہو گئے ہوں گے۔ یہاں پر نہ برف باری ہوگی نہ کوئی دراڑ، کچھ بھی نہیں۔ صرف برف کو ہلانے کے لئے جو چیز موجود ہوگی وہ شاذ و نادر ہونے والے ارضیاتی واقعات ہوں گے، بلکہ وہ بھی ابدیت کے ساتھ ختم ہوچکے ہوں گے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں