پہلی بار ہائیڈروجن کے بندھوں کا براہ راست پتہ لگا لیا گیا ہے
ہم طبیعیات کے نئے درجے تک پہنچ گئے ہیں۔
بی ای سی عملہ 15 مئی 2017ء
پہلی بار، طبیعیات دانوں نے ایک واحد سالمے کے اندر موجود ایک ہائیڈروجن بند کا براہ راست معلوم کرلیا ہے - یعنی کہ اب ہم کائنات کا سب سے چھوٹا اور فراوانی سے پائے جانے والے عنصر کا مشاہدہ اس طرح سے کرسکتے ہیں جہاں سائنس دان صرف نظری طور پر ہی بات کرسکتے تھے۔
تجربے سے یہ بات بھی مسلم ہوگئی ہے کہ ہمارے تصویری آلات کس قدر حساس ہوگئے ہیں - ہائیڈروجن کے بندھ کیمیائی بندھوں سے کہیں زیادہ کمزور ہوتے ہیں، اور ابھی تک، ان کو دیکھنا ناممکن رہا تھا۔ اب سائنس دان ان کو ایٹمی قوت سے چلنے والی خرد بین سے اس قدر واضح دیکھ سکتے ہیں کہ وہ ان کی درست قوت کی پیمائش بھی کرسکتے ہیں۔
کائنات میں موجود تمام عناصر میں سے سائنس دان جس کے بارے میں سب سے بہتر جاننے کی تگ و دود میں ہیں، اس فہرست میں بلاشبہ ہائیڈروجن سر فہرست ہے۔
ہائیڈروجن کائنات میں نظر آنے والی کمیت کا 75 فیصد جبکہ تمام جوہروں کا 90 فیصد سے زیادہ بناتی ہے۔
یہ آسانی کے ساتھ دوری جدول میں موجود تمام غیر دھاتی عناصر کے ساتھ لگ بھگ بند بنا لیتی ہے، اور ہمارے وجود رہنے کی بنیادی وجہ اس کے آکسیجن اور کاربن کے ساتھ مل کر بندھ بنانے کی صلاحیت ہی ہے۔
آپ اپنے بہت ہی پائیدار ڈی این اے کی دہری لڑی کی ساخت کے لئے ہائیڈروجن کے بند کی تعریف کرسکتے ہیں - دسیوں لاکھوں ہائیڈروجن کے بند ہی وہ سبب ہیں جس سے آپ کے ڈی این اے کے اساسی جوڑے ایک ساتھ ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ اصل میں ہمارے معلومہ حیات کے انتہائی بنیادی اجزاء میں سے ایک ہیں۔
لیکن جب ہائیڈروجن بندھوں کے ان کی خالص صورت میں تحقیق کی بات آتی ہے تو دو اہم سوال اپنی جگہ موجود نظر آتے ہیں: ہائیڈروجن جوہر جتنا چھوٹا ہوتا ہے؛ اس کے کمزور بندھ بہت آسانی سے ٹوٹ جاتے ہیں، خاص طور پر بات جب اکلوتے سالمات کی آتی ہے۔
"ہائیڈروجن کے جوہر - سب سے چھوٹے اور سب سے زیادہ فراواں - کی طبیعیات و کیمیا کی سب سے زیادہ اہمیت ہے،" بیزل یونیورسٹی کے نینو سائنس انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے محقق کہتے ہیں۔
"اگرچہ کافی تجزیاتی طریقے اس کی تحقیق پر لاگو کئے گئے ہیں، ایک واحد سالمے میں ہائیڈروجن جوہروں کا مشاہدہ کافی حد تک نامعلوم رہا ہے۔"
دھکیلو جیسا لگنے والے پروپلن کہلانے والے ہائیڈروجنی مرکب جیسی ترتیبات کے ساتھ، مرکب کا استعمال کرکے، سوئس ٹیم نے کامیابی کے ساتھ ایک آکسیجن جوہر اور دو ہائیڈروجن کے جوہروں کے درمیان فاصلہ اور قوت کی پیمائش کی۔
"ہمارے۔۔۔ حسابات سمتی بندھش کے اشاروں کی تصدیق کرتے ہیں، ہائیڈروجن کی ایک بہت ہی کمزور خاصیت،" محققین بتاتے ہیں۔
"ہائیڈروجن جوہر کے تعاملات کی براہ راست پیمائش نے سہ جہتی سالمات جیسے ڈی این اے اور پولیمر کی شناخت کی راہ ہموار کردی ہے۔"
تو انہوں نے یہ کیسے کیا؟
انہوں نے اس ہائیڈرو کاربن مرکب کا انتخاب کیا جو ہمیشہ سے اپنے آپ کو دو اوپر کی جانب رہنے والے ہائیڈروجن کے جوہروں میں منظم کرلیتے ہیں۔
آپ یہاں دھیکلو صورت کو ایک طرف سے دیکھ سکتے ہیں، جس میں ہائیڈروجن کے جوہر سفید ہیں (دوسرا اوپر کی جانب والا ہائیڈروجن کا بندھ پہلے والے کے پیچھے ہوگیا ہے۔
ٹیم نے اس کے بعد اس سالمے کو جوہری طاقت سے چلنی والی خردبین (اے ایف ایم) سے دیکھا، جو بہت ہی اعلی باریکی سے دیکھنے والی سرنگی کھوجی خردبین ہے جو ننھی قوتوں کو دیکھنے اور تخیل میں لانے کی قابلیت سے جانی جاتی ہے۔
انہوں نے خردبین کی نوک پر کاربن مونو آکسائڈ لگا دیا، جس نے اسے ہائیڈروجن کے لئے انتہائی حساس بنا دیا۔ جب نوک کو ان ہائیڈروجن جوہروں کے انتہائی قریب لایا جاتا ہے، تب ہائیڈروجن کے بندھ اس طرح سے تشکیل پاتے ہیں کہ ان کی براہ راست جانچ کی جاسکتی ہے۔
اس تصویر میں، آپ دونوں ہائیڈروجن جوہروں کو اوپری سمت کی طرف اشارہ کرتے دیکھ سکتے ہیں:
ایک ہائیڈروجن کا بند پروپلن (نچلے سالمے) اور کاربن مونو آکسائڈ خردبین کی نوک (اوپری سالمے) کے درمیان بنتا ہوا تعاون: بیزل یونیورسٹی، شعبہ طبیعیات
آپ اس کو مذکورہ بالا خاکے میں دیکھ سکتے ہیں، اوپر کاربن مونو آکسائڈ کی نوک کے ساتھ نیچے موجود ہائیڈرو کاربن کے مرکب 'پروپلن' بند بنا رہا ہے۔
جب محققین نے اپنے نتائج کا تقابل اس قسم کے سالمات کے بند کا پہلے سے موجود ہائیڈروجن بند کے مستند حسابات سے کیا، تو یہ بعینہ میل کھا گئے۔
جیسا کہ محققین نے نشاندہی کی، "انجینرنگ، کیمیا، اور حیات کے قلب میں ہائیڈرو کاربن سب سے زیادہ متنوع فیہ اور فعلیتی مصنوعہ ہیں، اور اکثر ہائیڈروجن ان کے افعال میں سب سے اہم ہوتی ہے۔"
اب جب ہم براہ راست ہائیڈروجن بندھوں کی پیمائش کرسکتے ہیں، لہٰذا ہم بالکل نئی طرح سے کائنات کے سب سے زیادہ اساسی بنیادی چیز کو دیکھنے والے ہیں، اور ہم اس بات کا انتظار نہیں کرسکتے کہ طبیعیات کا یہ نیا درجہ ہمیں آگے کہاں لے جائے گا۔
یہ تحقیق سائنس ایڈوانس میں شائع کی گئی ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں