مادے اور اشعاع کے کمزور ہونے کے بعد پوری کائنات سورج کی سطح کی طرح تھی۔ یہ گرم غیر شفاف اور پیلی روشنی سے لبریز تھی۔ جب مادّہ اور اشعاع کمزور ہو گئیں تو یہ یکایک شفاف ہو گئی تھی اور اسی وقت اشعاع کی کثافت کم ہو کر کائنات میں پائے جانے والے مادّے سے کم ہو گئی۔t = 106 برس کے بعد سے کائنات پر مادّے اور قوت ثقل کا غلبہ ہے۔ اور عدد صحیح میں آپ کو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جائے گی کہ یہ کتنے عرصے بعد سرخ منتقلی کی صورت میں ہوگا۔ جن فلکیاتی اجسام کی اب تک سب سے زیادہ سرخ منتقلی کی پیمائش کی گئی ہے وہ چند کوزار ہیں جن کی سرخ منتقلی (زی) 4 سے کچھ زیادہ ہے۔ کمزور دور کی سرخ منتقلی اور اس دور کی جب کائنات میں مادّے کا غلبہ تھا لگ بھگ زی = 1,000 کے برابر ہے۔ کائناتی پس منظر کی اشعاع میں موجود ہر فوٹون کی طول موج اس وقت سے جب اس نے مادّے کے ساتھ آخری مرتبہ تعامل کیا تھا 1,000 گنا زیادہ کھینچ گئی ہیں۔
پہلے چار منٹوں سے موازنہ کرنے میں اگرچہ پہلی نظر میں اشعاع کا دور ایسا لگتا ہے جس میں کچھ زیادہ چیزیں وقوع پذیر نہیں ہوئی تھیں تاہم شاید یہ وہ دور تھا جس میں وہ بے قاعدگیاں جو بعد میں بڑھ کر کہکشائیں اور کہکشانی جھرمٹ بن گئی پہلی مرتبہ وقوع پذیر ہوئی تھیں۔ اشعاع کے دور کے اختتام پر جب پائیدار جوہر بنے ہی تھے تو اس وقت ایک کروڑ جوہر کائنات کے ہر لیٹر میں موجود تھے۔ آج اوسطاً ہر ہزار لیٹر خلاء میں صرف ایک ہی جوہر موجود ہے۔ کمزوری کے وقت جوہروں کی کثافت کی تعداد کم از کم ہزار گنا زیادہ آج کہکشاؤں کی کثافت سے بھی زیادہ تھی۔ تاہم وہ مادّہ جو کائنات کی غالب خاصیت بن گیا تھا اس نے اس اشعاعی دور سے ہی وراثت حاصل کی تھی۔ کچھ جگہوں پر کثافت دوسری جگہوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی تھی۔ اس وقت تک کہ جب مادّہ شفاف، گہری اور ٹھنڈی ہوتی کائنات کے ارتقاء پر غالب آ رہا تھا وہ پہلے ہی اپنی فوری قوّت ثقل کی کشش سے گروہ کے ڈھیر میں بٹ گیا تھا اور وہ اس تیزی سے مہین نہیں ہوا تھا جس تیزی سے کائنات پھیل رہی تھی۔ اوسط کثافت کے ساتھ مادّے کے اس ڈھیر کے اندر کچھ علاقے گیس کے بادل بن گئے جنہوں نے ٹوٹ کر منہدم ہونا شروع کیا اور بالآخر ہماری اپنی ملکی وے کہکشاں اور دوسری کہکشاؤں کو بنانا شروع کیا۔ اس وقت تک جب کائنات کی آدھی عمر گزر گئی تو ہماری ملکی وے کافی حد تک اسی صورت میں موجود تھی جس طرح آج موجود ہے؛ 4.5 ارب برس پہلے ہمارا سورج اور نظام ہائے سیارگان وجود میں آئے، یہ اس بین النجمی مادّے سے بنے تھے جو پہلے ہی ستاروں کے قلب میں افزودہ اور باز یافتہ ہو چکا تھا اور اس میں بگ بینگ سے ملنے والی ہائیڈروجن اور ہیلیئم کے علاوہ بھاری عناصر بھی موجود تھے۔
10 ارب برس کے زیادہ تر عرصے میں مادّے میں زیادہ تر نوویہ مادّہ ستاروں اور کہکشاؤں میں بندھ گیا ہے، صرف بڑے پیمانے کی تبدیلی کائنات کے پھیلنے کے ساتھ کہکشانی جھرمٹوں کی ایک دوسرے سے دوری ہے یا پھر پس منظر کی مزید سرخ منتقلی کی طرف مائل متواتر ٹھنڈ ہے۔ تاہم کہکشاؤں کے بننے کی تفصیلات اب بھی مبہم ہیں اور مخالف نظریے بھی موجود ہیں جو مختلف ماہرین فلکیات کی جماعت نے یہ بیان کرنے کے لئے بنائے ہیں کہ کس طرح سے کائنات کے مادّے نے اپنے آپ کو اس گروہ کے نمونے میں سمیٹا جس کو ہم آج دیکھتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر ذرّاتی طبیعیات کی تازہ ترین فراست نے ہمیں سراغ دیا۔ اصل میں معیاری نمونہ زیادہ تر سوالات کے جوابات دینا باقی رہ گئے ہیں جو اس بات کی فراست میں مضمر ہیں یہ نہیں کہ کائنات آج کس طرح سے ایسے ہے بلکہ یہ معیاری نمونے میں بیان کئے گئے بگ بینگ سے پہلے ملی سیکنڈ میں کیسی تھی۔
باقی کے سوالات
1960ء اور 1970ء کے عشرے میں معیاری نمونے کی زبردست کامیابی کے باوجود یہ کافی سارے سوالات کے جوابات دینے سے قاصر رہی ہے۔ مادّہ کا ننھا حصّہ (فوٹون کے مقابلے میں) کہاں سے آیا؟ آیا کیوں کائنات اس قدر غیر معمولی طور پر یکساں اور ہم جنس ہے اور آیا کیوں کائنات کی کثافت اس سے اس قدر قریب ہے جس کی وجہ سے وہ چپٹی بن گئی ہے؟t = 0 وقت سے لے کر پہلے ملی سیکنڈ کے عرصے میں کیا ہوا تھا؟ کائنات کس طرح سے وجود میں آئی- تخلیق کے لمحے میں کیا ہوا تھا؟ اور کائناتی ارتقاء کے پیمانہ وقت کے دوسرے اختتام پر کائنات کا حتمی مقدر کیا ہوگا؟
علم کائنات کے یہ باقی سوالات جو کائنات کے ماخذ اور اس کے مقدر - وقت کی ابتداء و انتہا - سے متعلق ہیں ان کا جواب شاید ایک ہی انتہائی کامیاب نظریے سے دیا جا سکتا ہے جو 1980ء کے عشرے میں نمودار ہوا۔ یہ نظریے جس کو افراط کے نام سے جانا جاتا ہے کائنات کی ناقابل یقین چپٹے پن کو بھی بیان کرتی ہے۔
آخر کار ہم مابعد طبیعیات کی تفصیلات تک آ پہنچے ہیں وہ سوال جو سائنس کے دائرہ کار سے باہر سمجھا جاتا تھا۔ تاہم اب سائنس اس طرح کی حدود و قیود کو نہیں جانتی اور اس طرح کے تمام سوالات کا جواب دینے کے قابل ہے اگرچہ جواب اب تک مکمل نہیں ہے یا مکمل طور پر سمجھا نہیں جا سکا۔ تخلیق کے مسئلہ پر ہمارے پاس حملہ کرنے والے موجود ہیں۔ ان تمام گہری پہیلیوں کو سمجھنے کا انحصار اس چیز کو سمجھنے پر ہے کہ اس ایک سیکنڈ کے ننھے سے حصّے میں کیا ہوا تھا جہاں سے معیاری نمونہ اپنی کہانی شروع کرتا ہے - یعنی کہ بگ بینگ کے شروع ہونے سے پہلے۔ جیسا کہ میسا چوسٹس یونیورسٹی سے وابستہ طبیعیات دان ٹیڈ ہیرسن نے تبصرہ کیا تھا، 'کائناتی تاریخ کا زیادہ تر حصّہ پہلے سیکنڈ کے ایک ہزارویں حصّے میں ہی وقوع پذیر ہو گئی تھی اور اس کے بعد سے وہ 10 ارب برسوں میں وقوع پذیر ہو رہی ہے' (کوسمولوجی، صفحہ 354)۔ تاہم کائنات کی اصل ماہیت کو جدید مشاہداتی تیکنیک کا استعمال کرکے دوبارہ جانچ کر دیکھا جا سکتا ہے - ایک پرانا سوال جو ہبل کے وقت سے چلا آ رہا ہے کہ کائنات آج کس تیزی سے پھیل رہی ہے اور یہ ہمیں کائنات میں موجود مادّے کے بارے میں کیا بتاتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم علم کائنات میں اس اہم عدد کو قریب سے دیکھیں جو ہبل کے مستقل سے جانا جاتا ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں