انسانی فطرت، تاریخ اور نفسیات کو سمجھنے کے لئے، ہمیں اپنے شکاری اجداد کے دماغوں کے اندر جھانکنا ہو گا۔ ہماری نوع کی لگ بھگ پوری تاریخ میں سیپئین کی حیثیت خوراک کو جمع کرنے والوں کی ہی رہی ۔ ماضی کے 200 برس، جس کے دوران سیپئین کی بڑھتی ہوئی تعداد نے اپنی روزی روٹی بطور شہری مزدوروں اور دفتری مزدور کے طور پر حاصل کی، جبکہ اس سے 10,000 برس پہلے کے دوران زیادہ تر سیپئین دہقان اور چروا ہے کے طور پر رہتے رہے تھے ، دسیوں ہزاروں برس کے مقابلے میں جس میں ہمارے اجداد نے شکار کیا اور خوراک کو جمع کیا وہ پھلتی پھولتی ارتقائی نفسیات کے میدان کی دلیل دیتا ہے کہ آج کے ہمارے اکثر معاشرتی اور نفسیاتی خصائص اس طویل قبل از زرعی دور میں بنے تھے۔ یہاں تک کہ آج بھی اس میدان کا دعویٰ ہے کہ ہمارے دماغ اور ذہن شکار اور چیزوں کو اکھٹا کرنے کے موافقت میں ہیں۔ ہمارے کھانے کے اطوار، ہماری تنازعات، اور ہماری جنسیت تمام کے تمام شکاری اور جمع کرنے والوں کے دماغ کی پیداوار جبکہ ہمارے مابعد صنعتی ماحول، بڑے شہروں، ہوائی جہازوں، ٹیلی فون اور کمپیوٹر سے متعامل ہو کر کام کرنے کا نتیجہ ہیں۔ یہ ماحول ہمیں پچھلی نسل سے زیادہ مادی وسائل اور طویل العمری عطا کرتا ہے، تاہم یہی ماحول اکثر ہمیں اجنبی ہونے کا احساس ، اداس اور دباؤ کا شکار بھی محسوس کرواتا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے، ارتقائی نفسیات دان دلیل دیتے ہیں کہ ہمیں شکاری- جمع کرنے والی دنیا کی چھان بین کرنی ہو گی جس نے ہمارے مزاج کو بنایا ہے، مزاج کی وہ دنیا جو اب تک ہمارے لاشعور میں بیٹھی ہوئی ہے۔
مثال کے طور پر لوگ زیادہ حراروں والی خوراک کو ندیدوں کی طرح کیوں کھاتے ہیں جو ہمارے جسم کے لئے کچھ زیادہ فائدہ مند نہیں ہیں ؟ آج امیر معاشرے فربہی کے سرطان کے درد میں مبتلا ہیں جو تیزی سے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی پھیل رہا ہے۔ یہ بات راز ہی رہی گی کہ ہم کیوں میٹھی چیزوں اور چکنائی والی خوراک پانے کے دلدادہ ہیں تاوقتیکہ ہم اپنے خوراک اکھٹا کرنے والے اسلاف کے کھانے کے اطوار پر غور نہ کریں۔ سوانا اور ان جنگلوں میں جس کو انہوں نے آباد کیا تھا، زیادہ حرارے والی خوراک حد درجہ نایاب تھی اور عام طور پر غذا کی رسد کم تھی۔ 30,000 برس پہلے ایک عام خوراک کو اکھٹا کرنے والے کے پاس صرف ایک ہی طرح کی میٹھی خوراک تک رسائی تھی - پکا ہوا پھل۔ اگر پتھر کے دور کی کوئی عورت انجیر سے لدے ہوئے کسی درخت کے پاس آ جاتی، تو سب سے قرین قیاس بات یہ تھی کہ وہ اسی جگہ پر جتنا زیادہ کھا سکتی کھالے اس سے پہلے کہ مقامی ببون کا غول درخت کو خالی کر دے۔ زیادہ حراروں کی خوراک کا ندیدہ پن ہماری جین میں سختی سے جڑا ہوا ہے۔ آج ہم بلند و بالا گھروں میں بھرے ہوئے ریفریجریٹروں کے ساتھ رہتے ہیں، تاہم ہمارا ڈی این اے اب بھی یہ سمجھتا ہے کہ ہم سوانا میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم اپنے فریزر میں جب بھی بین اینڈ جیری کو پاتے ہیں تو پورے ڈبے کو کھا کر اوپر سے کوک بھی پی لیتے ہیں۔
اس 'ندیدے پن کی جین' کو ہمہ گیر طور پر قبول کیا جاتا ہے۔ دوسرے نظریات کہیں زیادہ متنازعہ ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ ماہرین نفسیات دلیل دیتے ہیں کہ قدیم اکھٹے کرنے والے جتھے ایک بیوی رکھنے والے مرکزی خاندانوں پر مشتمل نہیں ہوتے تھے۔ بلکہ اکھٹے کرنے والے اس طرح کے علاقہ میں رہتے جو ذاتی ملکیت، ایک بیوی کا رشتہ یہاں تک کہ پدریت بھی نہیں رکھتا تھا۔ اس طرح کے جتھے میں ایک عورت کئی آدمیوں (اور عورتوں ) کے ساتھ مباشرت کر کے ایک ساتھ قریبی تعلق قائم کر لیتی اور جتھے کے تمام بالغ اس بچے کی پرورش میں تعاون کرتے تھے۔ کیوں کہ کوئی شخص حتمی طور پر یہ نہیں جانتا تھا کہ کون سا بچہ اس کا ہے، آدمی تمام بچوں کے لئے ایک جیسا ہی لگاؤ رکھتے تھے۔
اس طرح کا سماجی ڈھانچہ کوئی مثالی معاشرت نہیں ہے۔ یہ برتاؤ دوسرے جانوروں میں بھی اچھی طرح سے دیکھی گئی ہیں خاص طور پر ہمارے قریبی رشتے داروں چمپانزی اور بونوبو میں۔ یہاں تک کہ آج بھی کئی انسانی ثقافتوں میں اجتماعی پدریت پر عمل کیا جاتا ہے، جیسا کہ مثال کے طور پر باری انڈینز ہیں۔ اس طرح کے معاشروں کے عقیدے کے مطابق، ایک بچہ کسی ایک آدمی کے نطفے سے نہیں بلکہ کئی نطفوں کے عورت کے رحم میں جمع ہونے کے بعد بنتا ہے۔ ایک اچھی ماں کی کئی مختلف آدمیوں کے ساتھ مباشرت کرنے کی ایک وجہ ہو سکتی ہے خاص طور پر جب وہ امید سے ہو، اس طرح سے اس کا بچہ نہ صرف بہترین شکاری (اور پدری دیکھ بھال بھی) بلکہ سب سے بہترین قصہ گو، مضبوط ترین لڑاکا اور سب سے با مروت عاشق کی خصوصیت حاصل کرے گا۔ اگر آپ کو یہ بات پاگل پن کی لگتی ہے تو ذہن میں رکھیں کہ جدید جینیاتی تحقیق کے ہونے سے پہلے، لوگوں کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت اس بات کا نہیں ہے کہ بچوں کو ہمیشہ سے کئی باپوں کے بجائے ایک باپ برداشت کرتا تھا۔
اس 'قدیمی کمیٹی' کے نظریے کے مخالف دلیل دیتے ہیں کہ کثیر نفسیاتی پیچیدگیوں کو چھوڑ کر جس سے دونوں بچے اور بڑے اس وقت گزرتے ہیں جب ان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ مشترکہ خاندان اور ایک بیوی والے تعلق میں رہیں، جدید شادیوں میں ہونے والی اکثر بے وفائیوں اور طلاق کی بلند شرح ہمارے حیاتیاتی سافٹ ویئر سے غیر مطابقت رکھتی ہے۔ 1
کئی علماء نے اس نظریئے کو سختی کے ساتھ رد کر دیا، وہ زور دیتے ہیں کہ یک زو جگی اور مشترکہ خاندان بنانا انسانوں کا اہم خاصہ ہے۔ اگرچہ شکاری-جمع کرنے والے سماج جدید معاشروں کے مقابلے میں زیادہ تر گروہی اور مساوی تھے، یہ محققین دلیل دیتے ہیں کہ قطع نظر اس بات سے وہ مختلف خانوں پر مشتمل ہوتے تھے، جس میں سے ہر ایک میں حاسد جوڑا اور ان کے مشترکہ بچے ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یک زو جگی تعلقات اور مرکزی خاندان زیادہ تر ثقافتوں میں عام ہیں، کیا وجہ ہے کہ مرد اور عورت اپنے ساتھی اور اپنے بچوں کے لئے بہت زیادہ ملکیتی ہوتے ہیں اور آیا کیوں جدید ریاستوں میں جیسا کہ شمالی کوریا اور شام میں سیاسی حاکمیت باپ سے بیٹے کی طرف منتقل ہوتی ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں