امن یا جنگ؟
بالآخر ایک چبھتا ہوا سوال خوراک اکھٹا کرنے والے معاشروں میں جنگ کے کردار کے بارے میں ہے۔ کچھ علماء تصور کرتے ہیں کہ قدیمی شکاری-اکھٹے ہونے والے معاشروں کو اتنا پرامن سمجھتے تھے جتنا کہ جنت، اور دلیل دیتے کہ جنگ اور تشدد صرف زرعی انقلاب کے بعد شروع ہوا جب لوگوں نے ذاتی مال کو جمع کرنا شروع کر دیا۔ دیگر علماء کہتے ہیں کہ قدیم خوراک اکھٹا کرنے والوں کی دنیا غیر معمولی طور پر ظالم اور متشدد تھی۔ دونوں مکتبہ فکر اپنے ہوائی محل بنا رہے ہیں، جن کی بنیاد ان مہین معمولی آثار قدیمہ کی باقیات کے دھاگوں اور دور حاضر کے خوراک اکھٹے کرنے والوں کی بشریاتی مشاہدات کے رابطوں پر ہے۔
بشریاتی ثبوت دلچسپ تاہم بہت پریشان کن ہیں۔ آج خوراک اکھٹا کرنے والے زیادہ تر الگ تھلگ اور بے آسائش علاقوں میں رہتے ہیں جیسا کہ آرکٹک یا کلہاری جہان آبادی زیادہ گنجان نہیں ہے اور دوسرے لوگوں سے لڑائی کے مواقع محدود ہیں۔ مزید براں حالیہ نسلوں میں خوراک اکھٹا کرنے والے تیزی سے جدید ریاستوں کی حکومت کی رعایا ہوتے ہیں، جو بڑے پیمانے پر ہونے والے تنازعات کو پھوٹنے سے روکتے ہیں۔ یورپی علماء کے پاس خودمختار خوراک اکھٹا کرنے والوں کے بڑے اور نسبتاً گنجان آبادی کا مشاہدہ کرنے کے صرف دو ہی مواقع ہی تھے : انیسویں صدی میں شمالی-مغربی شمالی امریکہ، اور انیسویں صدی کے دوران اور ابتدائی بیسویں صدی میں شمالی آسٹریلیا میں۔ دونوں امیر انڈین اور اصل النسل آسٹریلین ثقافتوں نے اکثر مسلح تنازعات کا مشاہدہ کیا۔ بہرحال اس پر بحث ہو سکتی ہے کہ آیا یہ 'غیر مختتم' صورتحال یا یورپی سامراج کے اثر کی نمائندگی کرتا ہے کہ نہیں۔
آثار قدیمہ کی دریافتیں قلیل اور مبہم دونوں ہیں۔ کسی بھی جنگ کے باقیات کے کون سے سراغوں کی غمازی کرنے والی چیزیں رہ جاتی ہیں جو دسیوں ہزار برس پہلے وقوع پذیر ہوئی تھیں ؟ اس وقت کوئی قلعہ بندی یا دیوار نہیں تھی، نہ کوئی توپ کے گولے بلکہ تلواریں یا ڈھالیں تھیں۔ ایک قدیم نیزے کی انی جنگ میں استعمال ہو سکتی ہے تاہم یہ شکار میں بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ رکازی انسانی ہڈیوں کی بھی تشریح کرنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ ایک فریکچر جنگی زخم یا ایک حادثے کا اشارہ دے سکتا ہے۔ نہ ہی فریکچر کے موجود ہونے سے یا ڈھانچے پر کسی قسم کا کٹاؤ نہ ہونے کی صورت حتمی ثبوت ہے کہ وہ شخص جس کا ڈھانچہ ہے وہ پر تشدد موت کا شکار نہیں ہو گا۔ موت نرم بافتوں میں لگنے والی چوٹ کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے جو ہڈیوں پر کوئی نشان نہیں چھوڑتی۔ بلکہ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ماقبل صنعتی جنگ کے دوران، 90 فیصد لوگوں کی اموات ہتھیاروں کے بجائے فاقوں، ٹھنڈ اور بیماریوں سے ہوئی۔ تصور کریں کہ 30,000 ہزار برس پہلے ایک قبیلے نے اپنے پڑوسی کو شکست دی اور اس کو حرص کرنے والے خوراک اکھٹے کرنے والے میدانوں سے بے داخل کر دیا۔ فیصلہ کن جنگ میں شکست شدہ قبیلے کے دس ارکان ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے اگلے برس ہارنے والے قبیلے کے مزید سو ارکان فاقوں، ٹھنڈ، اور بیماری سے ہلاک ہو گئے۔ ماہرین آثار قدیمہ جو اس طرح کے ڈھانچے کو تلاش کرتے ہیں آسانی سے نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ کسی قسم کی قدرتی آفات کا شکار ہوئے۔ ہم کس طرح سے یہ بتانے کے قابل ہو سکتے ہیں کہ وہ تمام ایک بے رحم جنگ کے شکار ہیں ؟
باقاعدہ طور پر خبردار ہوتے ہوئے اب ہم واپس ماہرین آثار قدیمہ کے نتائج کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔ پرتگال میں، زرعی انقلاب سے فوراً پہلے کے دور کے 400 ڈھانچوں کا سروے ہوا۔ صرف دو ڈھانچوں میں واضح طور پر تشدد کے نشان ملے۔ اسرائیل میں اسی دور کے 400 ڈھانچوں کے ایسا ہی سروے میں ایک واحد کھوپڑی میں ایک واحد شگاف دریافت ہوا جو انسانی تشدد کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔ 400 ڈھانچوں کا ایک اسی طرح کے کئے گئے ڈینیوبی وادی میں مختلف ماقبل زرعی جگہوں کے سروے میں تشدد کے ثبوت اٹھارہ ڈھانچوں پر معلوم ہوئے۔ 400 میں سے اٹھارہ کچھ زیادہ معلوم نہیں ہوتے، تاہم اصل میں یہ کافی زیادہ شرح ہے۔ اگر حقیقت میں تمام کے تمام اٹھارہ تشدد میں مارے گئے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ 4.5 فیصد قدیم ڈینیوبی وادی میں اموات کی وجہ انسانی تشدد تھا۔ آج جنگ اور جرم کو ملا کر عالمی اوسط صرف 1.5 فیصد ہے۔ بیسویں صدی کے دوران صرف 5 فیصد انسانی اموات انسانی تشدد کا نتیجہ تھیں - اور یہ اس صدی میں تھا جس نے سب سے زیادہ خوں خوار جنگیں اور بڑے پیمانے پر نسل کشی دیکھی ہے۔ اگر یہ انکشاف مثالی ہے تو قدیم ڈینیوبی وادی اتنی ہی متشدد ہو گئی جتنی کہ بیسویں صدی۔ *
ڈینیوبی وادی سے حاصل کردہ غارت گر نتائج کی حمایت اتنی ہی غارت گر نتائج دوسری جگہوں کے بھی کر رہے ہیں۔ سوڈان میں جبل صحابہ میں ایک 12,000 برس پرانے قبرستان میں انسٹھ ڈھانچے دریافت ہوئے۔ تیر کے سرے اور نیزے کی انیاں پیوست ہوئی یا ہڈیوں کے قریب چوبیس ڈھانچوں میں پائی گئیں جو تلاش کا کل 40 فیصد تھے۔ ایک عورت کے ڈھانچے میں بارہ زخموں کا انکشاف ہوا۔ بویریا کے ایک آف نیٹ غار میں، ماہرین آثار قدیمہ نے اڑتیس خوراک کو اکھٹے کرنے والوں کی باقیات کو تلاش کیا، جس میں زیادہ تر عورتیں اور بچے تھے جن کو قبروں کے گڑھوں میں پھینک دیا گیا تھا۔ آدھے ڈھانچوں میں بشمول بچوں اور شیر خواروں کے ہتھیاروں سے جیسے کہ چھڑی اور چاقو سے دیئے ہوئے انسانوں کے واضح زخموں کے نشان تھے۔ چند ڈھانچے جو بالغ مردوں کے تھے ان پر تو تشدد کے بد ترین نشانات تھے۔ تمام تر امکانات میں ایک پورا خوراک اکھٹا کرنے والے گروہ کا آف نیٹ پر قتل عام کیا گیا۔
کون سی چیز قدیم خوراک اکھٹا کرنے والوں کی بہتر نمائندگی کرتی ہے : اسرائیل اور پرتگال سے حاصل ہوئے پرامن ڈھانچے، یا جبل صحابہ اور آف نیٹ کے مذبح خانے ؟ جواب اس میں سے کچھ بھی نہیں ہے۔ جس طرح سے خوراک اکھٹا کرنے والے مذاہب اور معاشرتی ڈھانچوں کے وسیع صف کو ظاہر کرتے ہیں، اسی طرح شاید وہ تشدد کی مختلف شرح کو بھی بیان کرتے ہیں۔ اگرچہ کچھ جگہیں اور کچھ ادوار میں امن اور سکون رہا ہو گا، جبکہ دوسروں میں تند خو تنازعات رہے ہوں گے۔ 10
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں