سیپئین کی ایجاد کردہ تصوراتی حقیقت کے زبردست تنوع اور نتیجتاً رویے کی صورت میں نکلنے والا تنوع وہ اہم اجزاء ہیں جس کو ہم 'ثقافت' کہتے ہیں۔ ایک مرتبہ جب ثقافت ظاہر ہوئی تو اس نے کبھی تبدیل ہونا اور آگے بڑھنا نہیں چھوڑا اور یہ نہ روکی جانے والی تبدیلیاں ہی وہ ہیں جنھیں ہم 'تاریخ' کہتے ہیں۔
ادراکی انقلاب اس نقطے کے مطابق ہوتا ہے جب تاریخ کو حیاتیات سے الگ کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ ادراکی انقلاب تک تمام انسانی نوع کے اعمال کا تعلق حیاتیات کی حکمرانی سے تھا، یا اگر آپ یوں کہنا چاہیں، قبل از تاریخ (میں 'قبل از تاریخ' کی اصطلاح سے بچنا چاہتا ہوں، کیونکہ اس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ ادراکی انقلاب سے پہلے انسان اپنے خود کے زمرے میں تھے )۔ ادراکی انقلاب کے بعد سے تاریخی روایات نے ہومو سیپئین کی ترقی کی وضاحت کرنے کی صورت نے حیاتیاتی نظریوں کی جگہ لے لی۔ عیسائیت یا انقلاب فرانس کے عروج کو سمجھنے کے لئے جین کے تعاملات، ہارمونز اور جانداروں کو سمجھنا کافی نہیں ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ساتھ ساتھ خیالات کے ردعمل، تصور اور قوت متخیلہ کو بھی مد نظر رکھا جائے۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہومو سیپئین اور انسانی ثقافت حیاتیاتی قوانین سے مستثنیٰ ہیں۔ ہم اب بھی جانور ہیں اور ہماری طبعی، جذباتی اور ادراکی صلاحیتیں اب بھی ہمارے ڈی این اے کو بنا رہی ہیں۔ ہمارا سماج اسی بنیادی مادے سے بنا ہے جس سے نیندرتھل یا چمپانزی کے سماج بنے تھے اور ہم جتنا ان بنیادی مادوں کا تجزیہ کرتے ہیں - احساسات، جذبات، خاندانی تعلقات - تو اتنا ہی کم فرق ہم اپنے اور دوسرے جانوروں میں پاتے ہیں۔
بہرحال یہ غلطی ہو گی اگر ان تفاوتوں کو انفرادی اور خاندان کی سطح پر دیکھا جائے۔ دو بدو یا دس پہ دس ہم پریشان کن انداز میں چمپانزی ہی کی طرح ہیں۔ اہم اختلافات ظاہر ہونا اس وقت شروع ہوتے ہیں جب ہم 150 کی حد کو پار کرتے ہیں، اور جب ہم 1,000-2,000 افراد تک پہنچتے ہیں تو فرق بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ اگر آپ ہزار ہا چمپانزی کے ٹولوں کو ٹیانانمن اسکوئر، وال اسٹریٹ، یا ویٹی کن یا اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں جمع کرنے کی کوشش کریں گے تو نتیجہ طوفان بد تمیزی میں نکلے گا۔ اس کے برعکس سیپئین باقاعدگی سے اس طرح کی جگہوں پر ہزار ہا جمع ہوتے ہیں۔ مل کر وہ منظم نمونے بناتے ہیں - جیسا کہ تجارتی جال، بڑے پیمانے پر تقریبات اور سیاسی ادارے - جو وہ کبھی بھی اکے لیے رہ کر نہیں بنا سکتے۔ اصل اختلاف ہم میں اور ان چمپانزی میں افسانوی پیوستگی کا ہے جو بڑی تعداد میں افراد، خاندان اور گروہوں کو باندھ کر رکھتے ہیں۔ اس پیوستگی نے ہمیں تخلیق کا آقا بنا دیا۔
بلاشبہ ہمیں دوسری مہارتوں کی بھی ضرورت ہے جیسا کہ اوزاروں کو بنانے اور استعمال کرنے کی قابلیت۔ اس کے باوجود آلہ سازی کے نتائج کافی کم ہیں تاوقتیکہ اس کے ساتھ دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کی قابلیت نہ ہو۔ یہ کیسے ہوا کہ اب ہمارے پاس نیوکلیائی ہتھیاروں کو لے جانے والے بین البراعظمی میزائل ہیں، جبکہ 30,000 برس پہلے ہمارے پاس صرف لکڑی پر لگے چقمق کی انیاں تھیں۔ از روئے عضویات پچھلے 30,000 برسوں میں اوزاروں کو بنانے کی صلاحیت میں کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی۔ البرٹ آئن سٹائن اپنے ہاتھوں سے سبک رو قدیمی شکاریوں کے مقابلے میں کہیں کم صلاحیت کا حامل تھا۔ تاہم ہماری بڑی تعداد میں اجنبیوں سے تعاون کرنے کی صلاحیت ڈرامائی طور پر بہتر ہوئی ہے۔ قدیمی چقمق کے نیزے کی انیاں ایک واحد شخص جس کا انحصار مشوروں اور چند قریبی دوستوں کی مدد پر ہو منٹوں میں بنا سکتا ہے۔ جدید نیوکلیائی ہتھیاروں کو بنانے کے لئے پوری دنیا میں کروڑوں اجنبیوں کا تعاون درکار تھا - اس مزدور سے لے کر جس نے یورینیم کی کچ دھات کو زمین کی کان کی گہرائی سے نکالا اور نظری طبیعیات دان تک جس نے بڑے ریاضی کے کلیہ جات ذیلی جوہری ذرّات کے تعاملات کو بیان کرنے کے لئے لکھے۔
ادراکی انقلاب کے بعد حیاتیات اور تاریخ کے تعلق کا خلاصہ :
اے۔ حیاتیات نے ہومو سیپئین کے رویوں کے بنیادی پیرامیٹر بنائے۔ پوری تاریخ اس حیاتیاتی میدان کی حد کے گرد جمع ہے۔
بی۔ تاہم یہ میدان غیر معمولی طور پر بڑا تھا اور سیپئین کو اس میں شاندار تنوع والے کھیل کھیلنے کا موقع دیا۔ قصوں کو ایجاد کرنے کی صلاحیت کا مرہون منت ہونا چاہئے کہ سیپئین نے پیچیدہ سے پیچیدہ کھیل بنائے، جس کو ہر نئی نسل نے نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ اس میں مزید اضافہ کیا۔
سی۔ نتیجتاً اس بات کو سمجھنے کے لئے کہ کس طرح سے سیپئین برتاؤ کرتے ہیں ہمیں ان کے اعمال کی تاریخی ارتقاء کو بیان کرنا ہو گا۔ صرف اپنی حیاتیاتی رکاوٹوں کو حوالہ دینا ایسا ہی ہو گا جیسا کہ ایک ریڈیو اسپورٹ کاسٹر ورلڈ کپ فٹ بال چیمپئن شپ دیکھے، اور اپنے سامعین کو کھلاڑیوں کے کھیل کے بجائے کھیل کے میدان کی مفصل وضاحت کرے۔
پتھر کے دور کے ہمارے اجداد کون سے کھیل تاریخ کے میدان میں کھیلتے تھے؟ جہاں تک ہم جانتے ہیں وہ لوگ جنہوں نے لگ بھگ 30,000 برس پہلے اسٹیڈل شیر-آدمی تراشا تھا ان کی ویسی ہی طبیعی، جذباتی اور ادراکی صلاحیتیں تھیں جیسی کہ ہماری ہیں۔ وہ جب صبح اٹھتے تھے تو کیا کرتے تھے ؟ وہ ناشتے اور دوپہر کے کھانے میں کیا کھاتے تھے؟ ان کے معاشرے کیسے تھے؟ کیا ان کے یک زوجگی کے تعلقات اور مرکزی خاندان تھے ؟ کیا ان کی تقریبات، اخلاقی قوانین، کھیل کے مقابلے اور مذہبی رسومات ہوتی تھیں ؟ کیا وہ جنگیں لڑتے تھے؟ اگلا باب ادوار کے پردے کے پیچھے جھانکے گا، جائزہ لے گا کہ کس طرح کی زندگی ان ہزار ہا برسوں کے دوران تھی جو ادراکی انقلاب اور زرعی انقلاب کے درمیان میں تھی۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں