ایکوا ریجیا
قرونِ وسطی کے کیمیاگراپنے زیر کار مادوں اور مرکبات کے لئے بڑی رنگ آمیززبان استعمال کرتے تھے۔ مثال کے طور پر مائعات کو عام طور پر "ایکو" (aqua) کہا جاتا تھا جو’’پانی‘‘ کے لیے لاطینی زبان کا لفظ ہے۔ یہ نام دراصل مائعات کی پانی جیسی صفات کی بناپر دیا گیا تھا۔
چنانچہ جب پہلی مرتبہ شراب کشید کرنے کا طریقہ معلوم ہوا اور اس سے الکحل حاصل کرنے کے طریقے کا علم ہوا تو ایک ایسا آبی محلول تیار کیا گیا جس میں صرف اسی قدر الکحل ہوتا تھا کہ جس کی وجہ سے یہ محلول جلنے لگے۔ ایسے محلول کوaqua ardens کہا جاتا تھا لاطینی زبان کے اس مرکب کے معنی ہیں”جلنے والا پانی‘‘۔ البتہ جس محلول میں الکحل کی مقدار زیادہ ہوتی تھی اسے aqua vitae (حیاتی آب) کا نام دیا جاتا تھا۔ اس کی وجہ غالبا یہ تھی کہ زندگی کو بوجھ سمجھ کر گزارنے والوں کو اسے پی کر ایک نئی زندگی کا احساس ہوتا تھا۔ یہ الفاظ مغرب میں اب بھی برانڈی کی بہت سی قسموں اور اس جیسے دیگر مائعات کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
تیرہویں صدی میں کسی وقت ان کیمیاگروں نے طاقتور معدنی تیزاب دریافت کر لئے۔ یہ واقعہ کیمیا کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ بہت سی چیزیں جو پانی میں حل نہیں ہوتیں انہیں تیزابوں میں حل کیا جا سکتا ہے۔ قدیم زمانے میں سرکے کوہی طاقتور ترین تیزاب سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس وقت تک معدنی تیزاب دریافت نہیں ہوئے تھے جو درحقیقت سر کے کی نسبت لاکھوں گنا طاقتور تھے۔ نیز بہت سے کیمیائی تعاملات جو پہلے عمل میں نہیں آتے تھے۔ اب ان معدنی تیزابوں کے بدولت ممکن ہوگئے تھے-
مثال کے طور پر جب نائٹرک ایسڈ دریافت ہوا تو اس کا نام aqua fortis (طاقتور پانی) رکھا گیا۔ اس کی وجہ تھی کہ یہ تقریباً ہر اس مادے کوگلا دیتا تھا جو اس میں یا اس کے قریب رکھا جاتا تھا۔ ان مادوں میں سونے کے سوا وہ تمام دھاتیں بھی شامل ہیں جو اس وقت تک معلوم ہو چکی تھیں۔ اگر اس نائٹرک ایسڈ میں ہائیڈروکلورک ایسڈ (جو تین سوسال بعد دریافت ہوا تھا) یا امونیم کلورائڈ شامل کیا جاتا تھا تو نتیجے میں حاصل ہونے والا تیزابی آمیزہ سبزرنگ کا ہو جاتا تھا اور مزید طاقتور ہو جاتا تھا کیونکہ اب اس میں سونا بھی حل ہو سکتا تھا (اس کی وجہ تھی کہ جب ہائیڈریکلورک ایسڈ نائٹرک ایسڈ سے عمل کرتا تھا تو اس کے نتیجے میں سبزرنگ کا عنصر کلورین بنتا تھا اور یہی چیز سونے پر اثرانداز ہوتی تھی)۔
سونے کو چونکہ دھاتوں کا بادشاہ سمجھا جاتا تھا چنانچہ جو تیزاب اسے اپنے اندرحل کرلے ظاہرہے وہ بھی پانیوں کا بادشاہ ہوگا۔ اس لئے اسےaqua regia (آب سلطانی یا ماءالملوک) کا نام دیا گیا۔ آج اگرچہ اس کی کیمیاگری کے دور کی تمام اصطلاحات ختم ہو گئی ہیں تاہم یہ واحد اصطلاح ہے جوابھی تک تیزابوں کے ایک ایسے آمیزے کے لئے مستعمل ہے جس میں ایک حصہ مرتکز نائٹرک ایسڈ اور تین حصے مرتکز ہائیڈروکلورک ایسڈ شامل ہوتے ہیں۔ تیزابوں کا یہ آمیزہ پلاٹینیم بھی اپنے اندرحل کر لیتا ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں