بصری روشنی میں کہکشاؤں کی تمام تقسیم کی تحقیق کرنے میں جو مظہر رکاوٹ بنتا ہے اس کو ہم تمتمانے سے جانتے ہیں۔ اس کا سرخ منتقلی سے کوئی تعلق نہیں ہے تاہم یہ دور دراز کے اجسام سے آنے والی روشنی کا ملکی وے میں موجود گرد کی وجہ سے مدہم ہونا اور تمتمانا ہے - یہ اثر بعینہ ایسے ہی ہے جیسے کہ زمین کے کرۂ فضائی میں موجود دھول سورج کو غروب ہوتے ہوئے سرخ کر دیتی ہے۔ ملکی وے کی دھول سادہ طور پر آسمان کے کئی حصّوں کی روشنی کو ڈھانپ دیتی ہے جس کی وجہ سے ماہرین فلکیات کے پاس صرف شمالی اور جنوبی نصف کرۂ کے کچھ حصّوں کے صاف مناظر بچتے ہیں جو ملکی وے کی سطح مستوی سے اوپر ہوتے ہیں۔ مدہم کہکشاؤں (اس کا مطلب تقریباً یہی ہے کہ مزید دور دراز کی کہکشاؤں) سے آنے والی روشنی زیادہ متاثر ہوتی ہے، لہٰذا کائنات میں مزید آگے دیکھنے کے لئے آپ زیادہ اوپر تک دیکھنا چاہئیں گے اس کے لئے آپ کو اپنی فلکیاتی نظر شمالی اور جنوبی آسمانوں پر بلند ارض البلد تک اٹھانی ہو گی۔ اس کے بعد شمالی کہکشاؤں کا جنوبی کہکشاؤں کے ساتھ مقابلہ کرنے میں مسئلہ ہے۔ جب وہ محدود مشاہدات کو ملانا چاہتے ہیں تو ان کو کہکشاؤں کی فہرست درکار ہوتی ہے جس نے آسمان کا جتنا ممکن ہو سکے احاطہ کیا ہو، ماہرین فلکیات کو شمالی اور جنوبی کہکشاؤں کی روشنی کا ایک قطعی پیمانے پر درست اندازہ لگانا ناممکن ہوتا ہے۔ شمالی کہکشاؤں کو صرف شمالی نصف کرۂ میں موجود دوربینوں سے دیکھا جا سکتا ہے؛ جنوبی آسمان میں اونچی کہکشائیں صرف جنوبی دوربینوں سے ہی نظر آسکتی ہیں۔ مثالی طور پر حالیہ دور کی تیکنیک سے پیمائش کرکے مدہم اجسام کی روشنی کا موازنہ ان متحرک تحقیقات کے لئے درکار صحت کے ساتھ کیا جا سکتا ہے جن پر تمام مطالعہ کیا گئی کہکشاؤں پر ایک ہی دوربین اور آلات کے ذریعہ نظر رکھی گئی ہے۔ تاہم کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے جو ایک ہی دوربین اور الے کا استعمال کرکے زمین کی سطح سے نظر آنے والی ہر کہکشاں کی روشنی کی پیمائش کر سکے؛ دروبینیں اتنی بھاری ہیں کہ انھیں آسانی سے حرکت نہیں دی جا سکتی۔
آئی آر اے ایس نے یہ دونوں اور دوسرے مسئلے بھی حل کر دیئے۔ زیریں سرخ روشنی بمشکل سے کہکشاں میں موجود دھول سے ہونے والی ٹمٹماہٹ سے متاثر ہوتی ہے اور ایک جیسے آلات سے زمین کے مدار میں تمام آسمان کا نقشہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ آئی آر اے ایس تمام اطراف میں کہکشاؤں کو دیکھ سکتی ہے سوائے ملکی وے کے پھیلے ہوئے بہت ہی تنگ علاقے کے اور ان کہکشاؤں کو آسانی کے ساتھ ہماری کہکشاں کے روشن ستاروں سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دسیوں ہزار کہکشاؤں کا سروے زیریں سرخ اشعاع کی طول موج پر ہوا جس نے لگ بھگ پورے آسمان کا احاطہ کر لیا تھا۔
کچھ زیریں سرخ کہکشاؤں کو بصری دوربین اور ان کی سرخ منتقلی کی پیمائش کا استعمال کرکے بھی شناخت کر لیا گیا۔ زیریں سرخ میں ان اجسام کی روشنی کا موازنہ ان دوسری زیریں سرخ کہکشاؤں کے ساتھ جن کو ابھی تک بصری طور پر نہیں دیکھا گیا آسیہ لگتا ہے کہ جیسے آئی آر اے ایس سروے پھیل کر اس دو گنا فاصلے پر چلا گیا جن فاصلے پر رابن اور اس کے رفقائے کاروں نے کہکشاؤں کی تحقیق کی تھی۔تاہم یہ آسمان پر یکساں نہیں پھیلے ہوئے تھے۔اوسطاً ایک طرف آسمان کے ایک ہی جیسے حصّے میں تھوڑی سی زیادہ چیزیں دوسرے حصّے کے مقابلے میں تھیں؛ اور جو سمت آئی آر اے ایس سروے نے چنی تھی وہ وہی سمت تھی جس میں ہم پس منظر کی اشعاع کے ساتھ حرکت کر رہے تھے۔ آخر کار فلکیات دان اصل میں (زیریں سرخ سراغ رسانوں کا استعمال کرکے) مادّے کی مرتکز حالت کے ثبوت اس ٹھیک سمت میں 'دیکھتے' ہیں جو کھینچنے کا اثر مقامی گروہ اور دوسری کہکشاؤں پر ہمارے کائنات کے حصّے میں پیدا کر رہا ہے۔
یہ کہانی کا اختتام نہیں ہے۔ اس وقت کے کوئین میری کالج لندن سے تعلق رکھنے والے مائیکل روون-رابنسن ان محققین میں سے ایک تھے جو آئی آر اے ایس کے اعداد و شمار کا تجزیہ کر رہے تھے۔ انہوں نے حساب لگایا کہ کل کتنا مادّہ ہونا چاہئے جو کائنات کے اس علاقے پر پھیلا ہوا ہونا چاہئے جس کو آئی آر اے ایس نے اسی طرح سروے کیا تھا جس طرح سے آئی آر اے ایس کی کہکشاؤں کی تقسیم تھی تاکہ اس اضافی مرتکز کو ثقلی کھنچاؤ اسی سمت میں جس میں ہم حرکت کر رہے ہیں پیدا کرنے کے لئے درکار تھی جس سے مقامی گروہ کی 600 کلومیٹر فی سیکنڈ کی منفرد سمتی رفتار پیدا ہوتی۔ وہ خلقی غیر یقینی کے لگ بھگ اندر اندر جس جواب کے ساتھ آیا وہ اسی کے برابر تھا جو ایک بند کائنات کے لئے درکار تھی۔
آئی آر اے ایس کے اعداد و شمار کی سادہ توضیح یہ ہے کہ اومیگا لگ بھگ ایک ہے اور رات کے آسمان پر کہکشاؤں کی تقسیم احتیاط کے ساتھ چنی ہوئی بصری روشنی سے زمینی مشاہدات کی حد کائنات میں تقسیم ہوئے مادّہ کی طرف ٹھیک رہنمائی نہیں کرتی۔
یہ کائنات کی ماہیت سے متعلق ثبوت کا سب سے طاقتور حصّہ ہے جسے متحرک کہکشاؤں کی تحقیق نے ابھی بتانا ہے۔ یہ کہکشاؤں کی حرکیات کی پہلی براہ راست پیمائش ہے جو اومیگا کی قدر کو ایک دیتی ہے۔ یہ تصور 1980ء کے عشرے کے اواخر اور 1990ء کے عشرے کی ابتداء میں زبردست چھان پھٹک کے بعد آیا اور یہ ہر امتحان میں پورا اترا۔ بنیادی تصویر واضح ہے اور مشاہدات بڑی اچھی طرح سے نظریوں کے بڑھتے ہوئے اثبات سے میل کھا رہے ہیں کہ Ω = 1 ہے۔ یاد ہے نا کہ یہ ہمیشہ ممکن ہے کہ ہم اس سے کہیں زیادہ مزید مادّے اور مزید مادّے کی اقسام کو کائنات میں دیکھ سکتے ہیں جس کو ہم فی الوقت جانتے ہیں اور کوئی بھی ایسا طریقہ نہیں ہے جس سے ہم اس مادّے کو 'ہٹا' دیں جس کو ہم پہلے سے جانتے ہیں۔ یہ کثافت کے عدد صحیح پر ایک مطلق قدغن ہے اومیگا کے تخمینہ جات ہمیشہ وقت کے ساتھ اوپر گئے ہیں کبھی نیچے نہیں آئے۔ زیادہ تر فلکیات دان اب بھی ضدی دعوے کرنے میں محتاط ہیں تاہم بند کائنات کی طرف ثبوت اس سے کہیں زیادہ ہیں جیسے کہ پہلے کبھی تھے۔
اور ابھی تک یہ چیز ہماری 1970ء کی دہائی تک حاصل کردہ فہم کے خلاف ہی گئی ہے۔ اس کے بعد زیادہ تر فلکیات دان یقین رکھتے ہیں کہ کائنات کو بند کرنے کے لئے درکار مادّے سے 20 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ غلطی وہ یہ فرض کرتے ہوئے کرتے ہیں کہ کائنات میں صرف وہی مادّہ ہے جس کو ہم دیکھ سکتے ہیں - روشن ستارے اور کہکشائیں۔ یہ تب ہی کی بات ہے جب نظری اس نئے نمونے کے ساتھ آئے کہ کائنات کس طرح سے پیدا ہوئی تھی، ایک ایسا نمونہ جو اومیگا کو بغیر کسی ابہام کے ایک درکار کرتا ہے تب ہی انہوں نے اس بات کا اندازہ کیا کہ کائنات میں دوسرا کافی زیادہ تاریک مادّہ بھی موجود ہوگا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں