Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 11 اگست، 2017

    ستاروں کی ارتقائی منازل


    ایک عمر رسیدہ ستارے کے قلب میں اس کے اہم سلسلے کے دور حیات کے خاتمے کے وقت ایک ہیلیئم کا قلب موجود ہوتا ہے جس کے گرد ایک ایسا خول ہوتا ہے جس میں ہائیڈروجن اس وقت بھی جل کر ہیلیئم میں تبدیل ہو رہی ہوتی ہے۔ ستارے کی بڑھتی عمر کے ساتھ خول باہر کی طرف پھیلتا رہتا ہے اور قلب بڑا ہوتا رہتا ہے۔ ہیلیئم کا قلب اپنے وزن سے سکڑتا ہے اور گرم ہوتا رہتا ہے تاوقتیکہ وہ اپنے قلب میں اس قدر گرم ہو جائے کہ جلنے کے ایک نئے مرحلے کی ابتداء ہو سکے جس میں ہیلیئم اب کاربن میں ضم ہوتی ہے۔ یہ کام ہمارے سورج میں آج سے پانچ ارب برس بعد ہونا شروع ہوگا۔ چھوٹے سے گرم قلب کے ساتھ ہمارا سورج آج کے مقابلے میں زیادہ توانائی انڈیل رہا ہوگا، ستارے کی باہری پرت اس کو سجا دے گی جو عطارد اور زہرہ کو نگل لے گی اور زمین کو بھی بھون کر رکھ دے گی۔ اس عظیم گیس کی گیند کی سطح پر درجہ حرارت آج سورج کی سطح پر موجود درجہ حرارت سے کہیں کم ہوگا لہٰذا ستارے کا رنگ ٹھنڈا سرخ ہوگا - اس طرح کے ستارے سرخ دیو یا سرخ ضخام کے نام سے جانے جاتے ہیں اور کئی سرخ دیو کو ماہرین فلکیات پہلے ہی سے جانتے ہیں۔

    اس طرح کی تبدیلیاں ستاروں کے جھرمٹوں میں ہوتے ہوئے دیکھی جا سکتی ہیں جب ان کی تابانی اور رنگوں کو ایچ آر خاکے پر بنایا جاتا ہے۔ اہم سلسلہ خاکے پر اوپری بائیں طرف سے نچلی دائیں طرف عمودی طور پھیلا ہوا ہے۔ سرخ دیو اہم سلسلے کے اوپر، خاکے کے اوپری دائیں طرف موجود ہیں۔ اگرچہ انفرادی ستاروں میں خاکے میں اپنے مقام کی تبدیلی کا مشاہدہ کرنے میں کافی لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے تاہم کمپیوٹر نمونے ہمیں بتاتے ہیں کہ کس طرح سے سرخ دیو یہاں پر پہنچتے ہیں۔

    زیادہ کمیت کے ستارے کم کمیت کے ستاروں کے مقابلے میں تیزی سے اپنا ایندھن جلاتے ہیں اور زیادہ تیزی سے چمکتے ہیں۔ ان کو سادے طور پر اپنے آپ کو قوت ثقل کے اندرونی طور پر کھینچنے سے بچا کر رکھنا ہوتا ہے۔ اس طرح کے بلند کمیت کے ستارے اہم سلسلے میں ایچ آر خاکے کے اوپری بائیں جانب ہوتے ہیں۔ جب ان کا ہائیڈروجن کا ایندھن ختم ہو جاتا ہے تو وہ اوپر 'چلے' اہم سلسلے سے ہٹ کر دائیں جانب جاتے ہیں۔ اور جیسے وقت گزرتا ہے وہ تمام ستارے جو اہم سلسلے میں ہوتے ہیں وہ سیدھی طرف ہو جاتے ہیں اوپری بائیں طرف سے شروعات کرتے ہوئے نچلی دائیں طرف اختتام پذیر ہو جاتے ہیں۔ جب فلکیات دان ہماری کہکشاں میں موجود ستاروں کے جھرمٹ کی تحقیق کرتے ہیں تو یہی چیز ہے جس کو وہ دیکھتے ہیں - ایک اہم سلسلہ بخوشی نچلی دائیں جانب سے کم کمیت کے ستاروں کے ساتھ شروع ہوتا ہے تاہم کسی نقطے پر اس کا اختتام ہوتا ہے اور وہ سیدھی طرف سرخ دیو کے گچھے کی طرف چلا جاتا ہے۔ اگر ہمیں کسی مخصوص جھرمٹ کے فاصلے کے بارے میں معلوم ہے تو ہم اس کے اس ارتقاء سیج پر پہنچنے کے مرحلے کا موازنہ معیاری کمپیوٹر کے نمونے سے اس نقطے کی پیمائش کو کرکے کر سکتے ہیں جہاں یہ تبدیلی وقوع پذیر ہوتی ہے اور اس طرح ہمیں فوری طور پر جھرمٹ کی عمر کا اندازہ ہو جاتا ہے۔


    خاکہ 8.2 اہم سلسلہ پر توجہ مرکوز کرکے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح سے ہمارے سورج کا مقام ان دوسرے ستاروں کے مقابلے میں ہے۔ تابانی کو سورج کی درخشانی کے حساب سے بتایا گیا ہے؛ اہم سلسلے کے ساتھ اعداد مناسب ستاروں کی کمیت سورج کی کمیت کے حساب سے ہیں۔

    جیسا کہ ہمیشہ سے ہی فلکیات میں ہوتا ہے کہ کسی بھی تیکنیک کے عملی اطلاق میں غیر یقینی کی صورتحال موجود رہتی ہے۔ ستاروں سے خلاء کو پار کرکے ہم تک آنے میں روشنی پر بین النجم دھول کے اثر کو ٹھیک کرنا ہوتا ہے؛ اہم سلسلے کے وہ نقطہ کبھی بھی درست طور پر بیان نہیں کیا گیا ہے جیسا کہ میرے بتلانے سے لگتا ہے؛ اور اس کے علاوہ بھی دوسری مشکلات موجود ہیں۔ بہرحال ان تمام عدم یقینیت کے ساتھ یہ بات واضح ہے کہ ہماری کہکشاں میں قدیم ترین ستاروں کے جھرمٹ کی عمر 14 ارب سے 20 ارب کے برس کے درمیان موجود ہے، ہمیشہ یہ قیاس کرکے کہ نجمی ارتقاء کا معیاری نمونہ 16 ارب برس کے اندازے کے ساتھ حقیقت میں ٹھیک ہے۔ 


    خاکہ 8.3 ہمارے سورج کی طرح کا ستارہ جب بوڑھا ہوتا ہے تو وہ اہم سلسلے کو چھوڑ کر بڑا تاہم ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ ٹھوس لکیر کے ساتھ اعداد ایک شمسی کمیت کے ستارے کی عمر کو اپنے پیدا ہونے کے بعد ارب ہا برس کی عمر میں دکھاتے ہیں؛ حقیقت میں ہمارے سورج نے پہلے ہی اہم سلسلے کو چھوڑنا شروع کر دیا ہے اور اس کی عمر چار یا پانچ ارب برس کی ہے۔

    دوسرے طریقے بھی موجود ہیں جو ہماری کہکشاں میں موجود اجسام کی اسی طرح کی عمر کو بتاتے ہیں۔ مثال کے طور پر زمین اور شہابیوں پر پائے جانے والے تابکار ہم جاؤں کی پیدائش ہماری کہکشاں میں ہونے والے سپرنووا کے دوران سمجھی جاتی ہے۔ یہ تابکار ہم جا غیر مستحکم ہیں اور بہت ہی نپے تلے اصول کے مطابق مستحکم عناصر میں بدلتے رہتے ہیں جس کو تجربہ گاہوں میں ہونے والی تحقیق میں اچھی طرح معلوم کر لیا گیا ہے۔ جیسا کہ ان کو مختلف تابکار جوہری مرکزوں کا تناسب کہا جاتا ہے ان سپرنووا دھماکوں میں بنے عناصر کا حساب اسی طریقے کا استعمال کرکے لگایا جا سکتا ہے جن کا استعمال ستارے کے کام کرنے کے طریقے اور کس طرح سے وہ ہائیڈروجن ہے ہیلیئم سے بھاری عناصر کو بناتے ہیں کو بیان کرنے میں کامیابی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ قیاس کرکے کہ سپرنووا نے کہکشاں کے بننے کے بعد سے ہمارے نظام شمسی کے بننے تک ایک مستحکم شرح سے تابکار مرکزوں کو پیدا کیا اور اس طرح آج نظام شمسی میں باقی بچے ہوئے ہر قسم کے تابکار مادّے کے تناسب کو کہکشاں کی عمر کا تعین کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سے کائنات کی عمر دوسرے ثبوتوں کے ساتھ اچھی طرح سے مل کر 15 ارب برس کی دیتی ہے۔


    خاکہ 8.4 جب ماہرین فلکیات نے ایک ساتھ بننے والے اور لگ بھگ ایک ہی عمر کے ستاروں کے گروہ (ایک جھرمٹ) کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ ستاروں کی عمر کے بارے میں اچھا اندازہ اس نقطہ کی پیمائش کرکے لگا سکتے ہیں جس پر ستارے اہم سلسلے کو چھوڑتے ہیں۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ستاروں کی ارتقائی منازل Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top