ضخیم ستارے جو کم ضخیم ستاروں کی نسبت زیادہ روشن اور گرم ہوتے ہیں وہ اس طرح نقطہ پر جلدی پہنچتے ہیں۔ اس صورت میں جھرمٹ M92 ہے اور وہ پانچ لکیریں جو اس تبدیلی نقطہ کو ظاہر کر رہی ہیں وہ حساب لگائی ہوئی 10، 12، 14، 16، اور 18 ارب برس کی عمریں ہیں۔ جھرمٹ کی عمر 14 سے 16 ارب ہا برس کی سمجھی جاتی ہے۔ صرف لگ بھگ دس جھرمٹوں کی ہی عمر کا ٹھیک طرح سے تعین کیا گیا ہے تاہم یہ اندازے کائنات کے عمر کو سمجھنے کے لئے بہت اہم ہیں۔
یہ ڈی واکولر کے نمونہ جس میں H کی قیمت 100 کے برابر ہے اس کو رد کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ اس نمونے میں کائنات کی زیادہ سے زیادہ عمر صرف 10 ارب برس کی ہے اور یہ لگ بھگ خالی کائنات کے برابر ہی ہے جہاں پر مادّہ پھیلاؤ کو آہستہ کرنے کے لئے بہت ہی تھوڑا سا ہے۔ تمام غیر یقینی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے 10 اور 15 ارب برس کے درمیان فرق اتنا زیادہ نہیں ہے کہ اس بحث کو ختم کر دے۔ تاہم یہ تضاد لازمی طور پر پریشان کر دینے والی ہے بشرطیکہ اتنا زیادہ مادّہ موجود ہو جو بند کائنات کے برابر ہو، جب H=100 کے تو کائنات کی عمر صرف 6.5 ارب برس کی ہو گی یعنی کہ قدیم ترین ستاروں کی معلوم عمر سے بھی آدھی۔ سینڈیج کے H=50 کے اندازے سے اگر کائنات بند ہے تو اس کی عمر 13 ارب برس کی ہو گی، یہ نجمی اجسام کی عمر سے کافی قریب ہے اور ہمیں اس میں زیادہ پریشانی نہیں ہوتی۔ مارچ 1982ء میں ہونے والے ایک اجلاس میں جہاں بگ بینگ کے تناظر میں عناصر کی تخلیق پر بحث ہو رہی تھی، سوسیکس یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے راجر ٹیلر نے عمر کے 'مسئلے' کو یوں خلاصے میں بیان کیا کہ 'اگر اومیگا ایک کے برابر ہے تو یہ ضروری ہے کہ H0 لگ بھگ 50 کلومیٹر فی سیکنڈ فی میگا پارسیک ہو،' اور 1982ء سے لے کر ابھی تک کوئی ایسی تبدیلی نہیں آئی ہے جس نے اس توجیح کو تبدیل کیا ہو۔ یہ دلیل اس وقت اور اچھی ہوتی ہے اگر H صرف 40 کلومیٹر فی سیکنڈ فی میگا پارسیک ہو، جب ایک بند کائنات کی عمر 16 ارب برس سے بڑھ جاتی ہے - اور اس طرح کی H کی قدر کو سینڈیج کے اعداد و شمار کے استعمال سے حاصل کرنے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ بلاشبہ کامل راضی نامے کے قریب دوسرے طریقے بھی ہیں بشرطیکہ ہماری کہکشاں میں قدیم ترین ستاروں کے جھرمٹ حالیہ اندازے سے تھوڑے سے کم عمر ہوں۔ کیا یہ نجمی اجسام کی عمروں کے اندازے تھوڑے سے زیادہ نہیں ہیں؟ شاید اس مرتبہ علم کائنات فلکی طبیعیات دانوں کو بتا رہی ہے کہ وہ کیسے اپنے نظریات کو بہترین طریقے سے ٹھیک کریں!
اس تمام بحث کا اختتام اس وقت ہو سکتا ہے اگر ماہرین تکوینیات اس قابل ہو سکیں کہ اس شرح کی پیمائش کر سکیں جس سے کائنات آج پھیلنا آہستہ ہو رہی ہے۔ یہ ہمیں ہمیشہ کے لئے بتا دے گا کہ کائنات میں کتنا مادّہ موجود ہے اور آیا یہ کھلی ہے کہ بند ہے اور ہبل کی کون سی قدر سچائی سے زیادہ قریب ہے۔ بدقسمتی سے اگرچہ اس طرح کی پیمائش کرنا تو ممکن ہے تاہم ایسا لگا ہے کہ اس کا عملی اطلاق مستقبل قریب میں تو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
سرخ منتقلی کی جانچ
ہبل کا قانون جو علم کائنات کی بنیاد ہے اصل میں پھیلتی ہوئی کائنات کی نامکمل وضاحت ہے۔ یہ ایک طرح سے نقص لگتا ہے؛ تاہم ماہرین تکوینیات اس حد تک ہوشیار ہیں کہ ہبل کے قانون سے ہونے والے انحراف کو سیدھے اپنے فائدے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں بشرطیکہ ان کے پاس دور دراز اجسام کے کافی اچھے مشاہدات موجود ہوں۔ بدقسمتی سے مشاہدات ایسے نہیں ہیں کہ ان کا اس کام کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سمتی رفتار (سرخ منتقلی) کا فاصلے سے تناسب کا قانون ہمارے قریبی پڑوس میں اور کائنات میں ہم جہاں تک دیکھ سکتے ہیں اس کے لئے کافی اچھا ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں قانون ان چیزوں میں ترمیم کرنے کی ضرورت کو شروع کرتا ہے جو دلچسپ ہوتی ہیں تاہم ایسا صرف گھر سے بہت دور جانے کے بعد ہوتا ہے کہ ہمیں ابھی ٹھیک سے معلوم نہیں ہے کہ کون سی ترمیم ضروری ہے۔
چیزوں کے دلچسپ ہونے کی وجہ خلاء کی علم الا شکال (جیومیٹری) ہے۔ زمین کی سطح پر کوئی بھی ماہر تعمیرات کسی عمارت کے فرش کی صورت گری کے منصوبے کو بہت آرام سے ان علم الا شکال کی مدد سے تیار کر سکتا ہے جس کی بنیاد بہت عرصے قبل اقلیدس نے ڈالی تھی، جس کا اطلاق خصوصیت کے ساتھ چپٹے میدان پر ہوتا ہے اور اس کو زمین کے خم کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہم سب سے اقلیدسی علم الاشکال کو اسکول میں پڑھا ہے اور ہمیں یاد ہے کہ مثال کے طور پر جب مثلث کے زاویوں کو جمع کیا جاتا ہے تو وہ 180 درجے کے ہوتے ہیں۔ تاہم اگر کوئی سروے کرنے والی جماعت بہت ہی بڑے اور مکمل مثلثوں کے سلسلے کو عظیم 'چپٹے' صحرا (شاید سہارا میں کہیں اس) کی سطح پر بنائیں گے اور احتیاط کے ساتھ ان مثلثوں کی پیمائش کریں گے تو ان کو معلوم ہوگا کہ جب بھی زاویوں کو جمع کیا جائے گا تو وہ 180 درجے سے زیادہ ہوں گے اور وہ 180 درجے سے فرق اس وقت بڑھتا چلا جائے گا جب وہ بڑے مثلث بنائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل میں زمین کی سطح خم دار ہے جس سے وہ ایک بند سطح بناتی ہے جو کافی حد تک کروی ہے، اور اس صورت پر لاگو ہونے والا درست علم الاشکال اقلیدس کا علم الاشکال نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے کہ ہم اس بات میں دلچسپی لیں کہ کائنات کتنی حیرت انگیز طور پر چپٹی ہے؛ یہ مناسب وقت ہے کہ ہم اس چپٹے پن سے ننھے انحرافات کو دیکھیں کہ وہ ہمیں اس ممکنہ مقدر کے بارے میں کیا بتاتے ہیں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں