اگر خلاء خود سے خمدار ہے تب اس کے علم الاشکال سے ہونے والے انحرافات روزمرہ کی اقلیدسی علم الاشکال سے ہم کافی اچھی طرح شناسا ہو جائیں گے اور یہ معقول فاصلے پر ظاہر ہوں گے۔ اس صورتحال میں 'مناسب فاصلے' کا مطلب چند میگا پارسیک سے زیادہ فاصلہ - ایک کروڑ نوری برس یا اس سے زیادہ ہے۔ یہ خود سے ہماری کائنات کی ایک بڑی خاصیت ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ زمان و مکاں کا علم الاشکال لگ بھگ چپٹا ہے لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کائنات میں مادّے کی کثافت حد فاصل قدر کے قریب ہے جو اس کو بند کائنات بنانے کے لئے درکار ہے۔ اصولی طور پر ہم یہ دیوہیکل مثلثوں کے زاویوں کی پیمائش کو کرکے بتا سکتے ہیں کہ یہ اس قدر سے کتنا قریب ہے۔ عملی طور پر بہرحال ہمارے پاس وہ مہارت نہیں ہے کہ ہم تمیز کر سکیں کہ کھلی اور بند ممکنات کے درمیان کھینچی ہوئی لکیر کہ کس طرف کائنات موجود ہے۔
'مستقل ضرب فاصلے کے برابر سرخ منتقلی' سے سادے طور پر ہبل کے قانون سے انحرافات کی پیمائش کرنا مشکل کام ہے۔ بہرکیف یہ وہ قانون ہے جس سے دور دراز کی کہکشاؤں کا فاصلے کا حساب ان کی سرخ منتقلی کو ناپ کر لگایا جاتا ہے! اور کس طرح سے ہم دور دراز کہکشاؤں کے فاصلے کا تخمینہ لگا سکتے ہیں تاکہ ہم ان سرخ منتقلیوں کا موازنہ کر سکیں اور دیکھ سکیں کہ ہبل قانون کائنات میں کس قدر دور تک کام کر سکتا ہے؟ اگر تمام کہکشاؤں کی روشنی ایک جیسی ہوتی تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ تمام کہکشاؤں کا نسبتی فاصلے کو رات کے آسمان میں ان کو ان کی روشنی کے لحاظ سے ترتیب دے کر معلوم کیا جا سکتا تھا - جتنا مدہم وہ نظر آتیں ہم جان لیتے کہ وہ ہم سے اتنا ہی زیادہ دور ہیں۔ اگر تمام کہکشائیں بھی ایک ہی جیسی روشنی کی حامل ہوتیں تب بھی اصل میں صورتحال پہلی نظر میں دیکھنے سے تھوڑی سی زیادہ اور پیچیدہ ہوتی۔ جہاں اقلیدسی علم الاشکال لاگو ہوتی تو ہر کہکشاں کی روشنی دوسری سے اس کے فاصلے کے جذرالمربع کی نسبت سے کم ہوتی - ایک کہکشاں جو دو گنا دور ہوتی وہ صرف چوتھائی روشن ہوتی۔ اس سادے اصول میں بھی ترمیم کرنی پڑتی جب علم الاشکال مختلف ہوتی اور اگر سختی سے کہا جائے تو تصحیح ہر قسم کے کونیاتی نمونے میں کی جاتی۔ تاہم یہ مسئلے کا سب سے کم تر حصّہ ہے جس کا سامنا ماہرین تکوینیات اس وقت کرتے ہیں جب اس جانچ کو لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کہکشاؤں کے مطالعے سے یہ صاف طور پر عیاں ہے کہ وہ تمام کی تمام ایک جیسی تابانی نہیں رکھتیں۔ اور اس کا بھی ٹھیک سے معلوم نہیں کہ یہ ترکیب سب سے زیادہ سرخ منتقلی رکھنے والی کوزاروں پر بھی لاگو ہوتی ہے یا نہیں۔ کوزاروں کو بہت زیادہ سرگرم اور کہکشاؤں کے روشن قلب سمجھا جاتا ہے۔ یہ عام کہکشاؤں سے زیادہ چمکتے ہیں اور زیادہ دور تک بلند سرخ منتقلی کے ساتھ نظر آتے ہیں جہاں پر علم الاشکال کا اثر واضح ہوتا ہے۔ تاہم یہ بھی نہیں واضح ہے کہ تمام کوزاروں کی تابانی ایک ہی جیسی ہوتی ہے لہٰذا یہ ترکیب کام نہیں کر سکتی۔ کیلی فورنیا میں واقع لک رصدگاہ میں کام کرنے والی ماہرین فلکیات کی ایک جماعت نے تابانی کی جانچ ان کوزاروں پر کرنے کی کوشش کی جن کا ایک دوسرے جیسا طیف تھا اور امید کی جا سکتی تھی کہ ان کی ایک ہی جیسی تابانی ہو گی۔ جو قابل قدر علم اس سے حاصل ہوا وہ یہ کہ موازنہ بتاتا ہے کہ کائنات بند ہے اور ایک دن یہ واپس منہدم ہو جائے گی۔ بہرحال کوئی بھی اس بات کے لئے تیار نہیں ہے کہ اس کوزار کے ثبوت کی قیاسی توضیح کو اسی طرح قبول کرلے۔ ماہرین تکوینیات مجبور ہیں کہ اس تیکنیک کو وہ کہکشاؤں کے مطالعہ کے لئے استعمال کریں جن کو کوزار سے کہیں بہتر طور پر سمجھا جا چکا ہے اور جہاں پر کچھ امید ہے کہ یہ ترکیب چل جائے گی۔
ایلن سینڈیج اور ان کے رفقائے کاروں نے کہکشاؤں کا طویل اور صبر آزما مطالعہ کیا اور دیکھا کہ ان میں سے کچھ کی تابانی ایک دوسرے جیسی لگتی ہے اور ان کو معیاری شمع کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کہکشائیں جھرمٹوں میں ہوتی ہیں اور اکثر جھرمٹ میں روشن ترین کہکشاں بہت ہی بڑی بیضوی ہوتی ہے(اپنی صورت کی وجہ سے نام نہاد، جیسا کہ موٹا سگار؛ ہماری اپنی ملکی وے کہکشاں بھی ایک مرغولہ نما ہے جس طرح سے بھنور کی سطح ہوتی ہے یا صورت کچھ اس طرح سے ہوتی ہے جیسے کافی کے پیالے میں پھینٹی ہوئی ملائی)۔جہاں تک مشاہدہ اس چند میگا پارسیک خلاء کے علاقے میں بتاتا ہے جہاں ہبل کا قانون صحت کے ساتھ کام کرتا ہے، سب سے روشن بڑی بیضوی کہکشاں اس طرح کے کسی بھی جھرمٹ میں اتنی ہی روشن ہوتی ہے جتنی کہ کسی دوسرے جھرمٹ میں کوئی بڑی بیضوی کہکشاں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس طرح کی کہکشاؤں کی قدرتی طور پر تابانی کی ایک حد ہے اور کسی بھی مہذب حجم کے جھرمٹ میں کوئی ایک کہکشاں اس تابانی کی حد تک پہنچتی ہے۔ لہٰذا ان مخصوص روشن کہکشاؤں کا استعمال کرکے اور ان کی ظاہری روشنی (اصل میں فاصلے) کا گراف سرخ منتقلی کے سامنے بنا کر، سینڈیج اس قابل ہوا کہ دیکھ سکے کہ ایک سیدھے خط سے کتنا دور جا کر یہ انحراف کرتا ہے، اور اس کے بعد اس نے تعین کیا کہ کتنی تیزی کے ساتھ کائنات کا پھیلاؤ آہستہ ہو رہا ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں