پرنسٹن کی جماعت نے جدید حساس سراغ رسانوں کو استعمال کرکے آسمان کے پانچ ننھے پیوند دیکھے، جس میں سے ہر ایک لگ بھگ 7 آرک منٹس ضرب 10 آرک منٹس (چاند 30 منٹس پر پھیلا ہوا ہے)، اور ان میں سے ہر پیوند میں ہر اس کہکشاں کی سرخ منتقلی کی پیمائش کی ہے جس کا وہ سراغ لگا سکتے تھے۔کیونکہ سرخ منتقلی فاصلاتی اشارہ ہے اس لئے اصل میں وہ ہر اہرام کی صورت کے حجم میں ان کہکشاؤں کو گن رہے تھے جو ہماری ملکی سے لے کر کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں۔ کم سرخ منتقلی والی کہکشاؤں کا زیادہ تعداد والی سرخ منتقلی کی کہکشاؤں سے مقابلہ کرکے وہ ہر کہکشاں کی مطلق روشنی کے مسئلے سے الجھے بنا ہر اہرام کی جیومیٹری کا تعین کر سکتے تھے۔ ان پانچ میں سے ہر ایک اہرام میں لگ بھگ 200 قابل سراغ کہکشائیں موجود تھیں، اور سروے تقریباً ایک ہزار میگا پارسیک کے فاصلے تک پھیلا ہوا تھا - یا بالفاظ دیگر وہ وقت میں واپس جاتے ہوئے بگ بینگ سے صرف ایک بٹا پانچ کے فاصلے کی دوری پر تھے۔
آپ کے ان اعداد کی تشریح اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کون سے ریاضی کا کائناتی نمونہ چنتے ہیں۔ لوہ اور اسپیلر نے سادہ ترین چنا، اضافیت کی مساوات کا وہ نسخہ جو آئن سٹائن اور ولیم ڈی سٹر نے 1932ء میں بنایا تھا۔ لوہ اور اسپیلر نے دیکھا کہ مختلف سرخ منتقلی پر ان کی کہکشاؤں کی گنتی کو سب سے بہترین طور پر سادہ ترین آئن سٹائن اور ڈی سٹر کا نمونہ صفر کائناتی مستقل اور اومیگا کی 0.9 کی قدر کے ساتھ بغیر کسی دقت کے ایک کے قریب بیان کرتا ہے جس میں تیکنیکی 'غلطی کی حد' ±0.3 ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کائنات کو کون سا مادّہ آپس میں تھامے ہوئے ہیں اور آیا کیا یہ کہکشاؤں کی طرح جھرمٹ کے ڈھیر میں ہے یا نہیں۔ اس کا بس وہاں ہونا ضروری ہے۔
میں اس شرح کی پیمائش کے لئے ایک اور نئی تیکنیک کا ذکر کروں گا جس سے کائنات پھیل رہی ہے کیونکہ یہ مستقبل کے لئے مسئلے کے حل کرنے کا سب سے امید افزا طریقہ ہے۔ یہ خلاء کی خمیدگی کا استعمال کرتا ہے تاہم اس میں کسی قسم کی حرکیات کا استعمال نہیں ہوتا۔ فلکیات دانوں نے کچھ اجسام کی دریافت کی ہے جہاں دور دراز کے کوزار سے آتی ہوئی روشنی کہکشاں کے گرد ہمارے اور کوزار کے مابین خط نظر میں اس وجہ سے خم کھاتی ہے کیونکہ کہکشاں کی کشش اپنے اطراف میں مکان و زمان کو بگاڑ دیتی ہے۔ اس کا اثر - ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کہ روشنی گرہن کے وقت خم کھاتی ہے تاہم اس کا پیمانہ کافی بڑا ہوتا ہے - زمین سے دیکھنے پر کوزار کی تصویر کو دوگنا یا تین گنا کر دیتا ہے اور کیونکہ روشنی ہم تک پہنچنے کے لئے مداخلت کار کہکشاں کے ایک طرف کے مقابلے میں دوسری طرف سے دیر تک پہنچتی ہے، لہٰذا جن ایک تصویر اپنی روشنی کو بدلتا ہے یا چمکتا ہے تو دوسرا کئی برسوں تک ایسا نہیں کرتا اور بعد میں وہ بعینہ ایسے ہی چمکتا ہے جیسے کہ اس کوزار کی دوسری تصویر ہم تک دوسرے راستے سے پہنچ کر کرتی ہے۔ ان تصویروں میں تبدیلی کا موازنہ اور وقت میں تاخیر کی پیمائش کرکے ماہرین تکوینیات حساب لگا سکتے ہیں کہ اس کوزار سے ہم تک روشنی پہنچنے میں کتنا وقت لیتی ہے اور اس طرح کسی بھی سرخ منتقلی کی پیمائش کا بجائے خود مختارانہ طور پر فاصلے کو اخذ کر سکتے ہیں۔اس طرح کی پہلی تیکنیک نے H کی قدر کو 75 کلومیٹر/فی سیکنڈ/ فی میگا پارسیک دیا تھا - سینڈیج اور ڈی واکولر کے قدروں کے عین درمیان اور دونوں کو ہی تھوڑا سے خوش کر دیا تھا۔تاہم 1991ء تک برینڈیز یونیورسٹی کے محققین نے میسا چوسٹس میں اور ایم آئی ٹی نے اس تیکنیک کو پہلے معلوم ثنائی کوزار کے ویری لارج ایرے (وی ایل اے) ریڈیائی دوربین کے نظام کا استعمال کرکے 11 برسوں کے مشاہدے سے بہتر بنایا۔ انہوں نے دیکھا کہ عدسی نظام کا علم الاشکال ہمیں بتاتا ہے کہ اگر اس مداخلت کار کہکشاں میں جو روشنی کو خم دے رہے ہے تمام مادّہ روشن صورت میں ہے جس کو ہم عام بصری دوربین سے دیکھ سکتے ہیں، تب ہبل مستقل کی قدر عمومی اکائی میں 46 ہے اگر اومیگا صفر ہے ورنہ 42 اگر اومیگا کی قدر ایک کی ہے۔ دونوں صورتوں میں 'غلطی کی حد' ±14 کی ہے۔ تاہم اگر مداخلت کار کہکشاں تاریک مادّے کے ہالے میں پیوست ہے جس کو ہم نہیں دیکھ سکتے تو H0 کی ٹھیک قدر 69 برائے صفر اومیگا اور برائے ایک اومیگا کے 63 ہے جبکہ خطاء کا امکان ±21 کا ہے۔
اس سے یہ لگتا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ ابھی تک حتمی طور پر تو مکمل نہیں ہوا تاہم H0 کی قدر سینڈیج اور تمان کا ساتھ دے رہی ہے (مطلب ایک بڑی پرانی کہکشاں)، کیونکہ جیسا کہ ہم آنے والے باب میں دیکھیں گے کہ قائل کرنے والی ایسی وجوہات ہیں کہ کہکشاؤں کے ارد گرد تاریک مادّہ موجود ہے اور لوہ اور اسپیلر کے مطابق اومیگا کافی حد تک ایک کے قریب ہے۔
سرخ منتقلی کی روایتی تیکنیک کا استعمال کرکے لوہ اور اسپیلر کے کام نے فلکیات دانوں کے ایک گروہ کو کافی خوش کر دیا جو اسی مسئلے سے ایک دوسرے زاویے سے نمٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ بھی اسی نتیجہ پر پہنچے کہ Ω = 1 ہے اور انہوں نے اپنا کام لوہ اور اسپیلر کے کام سے چند ماہ پہلے پیش کیا۔ ان نتائج پر شروع میں ان ماہرین فلکیات نے کافی شبہ کیا جو سیارچوں کے نئے زیریں سرخ اشعاع کے فلکی آلات کے استعمال سے واقف نہیں تھے۔ تاہم خلاء میں حرکت کرتی ہوئی ہماری اپنی کہکشاں کی یہ متحرک پیمائش جو بغیر کسی ابہام کے بند نمونوں کی طرف داری کرتی ہے اس کو اس وقت ناقابل اعتبار کہہ کر بدقت تمام رد کیا جا سکتا ہے جب روایتی طریقے ہمیں وہی پیغام رہے تھے اور جیسا کہ ہم جلد ہی دیکھیں گے کہ 1980ء کے عشرے کے اختتام تک نئے تجزیے ہر اس جانچ کے سامنے سرخ رو ہوئے جو ان پر کئے گئے تھے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں