مترجم:منصور محمد قیصرانی
آپ چاہے جتنی کوشش کیوں نہ کر لیں، آپ یہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ ایک پروٹان کتنا چھوٹا ذرہ ہے۔ پروٹان واقعی بہت مختصر جسامت کا حامل ہے۔
ایٹم کے مقابلے میں پروٹان اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اسے دیکھنا یا اس کی پیمائش کرنا بالکل بھی ممکن نہیں۔ تاہم ایٹم خود بھی کوئی زیادہ بڑی چیز نہیں اور اسے عام حالات میں دیکھنا بھی ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر ایک چھوٹے سے نقطے میں کم از کم 5 کھرب پروٹان سما جائیں گے۔ 5 کھرب کتنی بڑی رقم ہے، یوں سمجھیں کہ پانچ لاکھ سال میں گزرنے والے سیکنڈوں کی تعداد کے برابر ہے۔ یعنی پروٹان انتہائی چھوٹا ذرہ ہے۔
تاہم یہ بات واضح کر دوں کہ میں نے فرض کیا ہے کہ آپ تیزی سے پھیلنے والی کائنات بنانا چاہ رہے ہیں۔ اگر آپ بگ بینگ کے شیدائی ہوں تو اس کے لیے مزید بھی بہت کچھ درکار ہوگا۔ یعنی کائنات میں موجود تمام مادے کو جمع کر کے انتہائی چھوٹی سی جگہ پر رکھنا ہوگا۔ اس جگہ کو ہم اکائی یا وحدت یا Singularity کہیں گے۔
خیر، جو بھی کائنات آپ کی منشا کے مطابق ہو، ہر حال میں ایک انتہائی بڑے دھماکے کے لیے تیار ہو جائیں۔ ظاہر ہے کہ آپ اس دھماکے کو کہیں دور اور محفوظ جگہ پر بیٹھ کر دیکھنا چاہیں گے لیکن افسوس، ایسا ممکن نہیں۔ یہ اکائی یا وحدت ہی واحد جگہ ہے۔ جب کائنات پھیلنا شروع ہوگی تو ایسا نہیں کہ پہلے سے موجود خالی جگہ کو بھرتی جائے گی بلکہ اپنے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ جگہ بناتی اور اسے بھرتی جائے گی۔
زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اکائی یا وحدت سے مراد ایک تھلتھلاتے ہوئی غبارے جیسی کوئی چیز ہوگی جو تاریک خلاء میں معلق ہے۔ نہ تو ایسی کوئی چیز موجود ہے اور نہ ہی کوئی خلاء اور نہ ہی تاریکی۔ اکائی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ہمیں تو یہ بھی پوچھنے کی اجازت نہیں کہ کیا یہ اکائی پہلے سے موجود تھی یا ابھی ابھی وجود میں آئی ہے یا ہمیشہ سے اسی طرح تھی۔ ابھی وقت پیدا نہیں ہوا۔ اس اکائی کا کوئی ماضی نہیں کہ جہاں سے یہ پیدا ہوتی۔
اس طرح کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی ہماری کائنات شروع ہوئی۔
ایک خیرہ کر دینے والے لمحے میں یہ اکائی اچانک، انتہائی سرعت سے پھیل کر لامتناہی حجم میں بدل گئی۔ پہلے ہی لمحے (اس ایک لمحے کو فلکیات دان مزید حصوں میں تقسیم کرتے کرتے اپنی عمر گزار دیتے ہیں) میں تجاذب اور دیگر طبعی قوتیں پیدا ہو گئیں۔ ایک منٹ سے بھی کم وقت میں کائنات ایک کروڑ کھرب میل پھیل گئی اور ابھی تک پھیلتی جا رہی ہے۔ اس دوران بے پناہ حرارت پیدا ہوئی۔ اس حرارت کی مقدار اندازاً دس ارب ڈگری ہوگی جس سے نیوکلیائی تعامل شروع ہوا اور اس درجہ حرارت سے ہلکے عناصر جیسا کہ ہائیڈروجن، ہیلیم اور انتہائی معمولی مقدار (دس کروڑ میں سے ایک ایٹم) میں لیتھیم پیدا ہونے لگے۔ تین منٹ کے اندر اندر پوری کائنات میں اس وقت تک موجود یا آئندہ پیدا ہونے والے مادے کا 98 فیصد حصہ پیدا ہو گیا۔ اب ہمارے پاس ایک کائنات آ گئی ہے۔ انتہائی ناممکن کام ممکن ہوا اور انتہائی خوبصورت کائنات پیدا ہوئی۔ اس سارے عمل میں اتنا وقت لگا جتنی دیر میں ایک سینڈوچ بنتا ہے۔
یہ سب کچھ کیسے ہوا، کافی بحث طلب امر ہے۔ ماہرین فلکیات کے مطابق دس سے بیس ارب سال قبل یہ لمحہ آیا تھا۔ زیادہ تر ماہرین تیرہ اعشاریہ سات ارب سال پر متفق ہیں۔ آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ یہ باتیں یقین سے کہنا انتہائی مشکل کیوں ہیں۔ یقین سے صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماضی بعید میں کسی ناقابلِ بیان لمحے میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر ایک ایسا لمحہ آیا جسے سائنس t=0 کے نام سے جانتی ہے۔
بے شمار چیزیں ہم ابھی تک نہیں جان پائے یا انہیں جانے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ حتٰی کہ بگ بینگ کی اصطلاح حال ہی میں متعارف ہوئی ہے۔ 1920 کی دہائی میں بیلجیم کے ایک پادری اور محقق جارجز لیماتر نے یہ نظریہ پیش کیا تھا لیکن 1960 کی دہائی کے وسط میں اسے شہرت ملی جب دو نوجوان ریڈیائی انجنیئروں نے ایک حیران کن دریافت کی۔
ان کے نام ارنو پینزیاس اور رابرٹ ولسن ہیں۔ 1965 میں انہوں نے نیو جرسی میں واقع ہولمڈیل کے مقام پر نصب بیل لیبارٹریز کے مواصلاتی انٹینا استعمال کرنے کی کوشش کی تو ان کا واسطہ ایک مستقل شور سے پڑا۔ اس شور کی وجہ سے کسی قسم کا تجربہ کرنا ممکن نہیں رہا۔ یہ شور بظاہر غیر متعلق اور بے ترتیب تھا اور آسمان کے ہر گوشے سے آ رہا تھا۔ دن ہو یا رات، اس میں تبدیلی نہیں آتی تھی۔ پورے ایک سال تک انہوں نے اس شور کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ہر برقی نظام کو چیک کیا۔ بہت سارے آلات دوبارہ بنائے۔ سرکٹ دیکھے، تاریں بدلیں اور پلگ صاف کیے۔ پھر جھاڑو لے کر وہ انٹینا پر چڑھے اور پرندوں کی بیٹیں بھی صاف کیں جو سائنسی زبان میں وائٹ ڈائی الیکٹرک مٹیریل کہلاتا ہے۔ پھر ہر اونچ نیچ پر ٹیپ لگائی۔ تاہم ان کی ساری محنت اکارت گئی۔
اب اِن کی بے خبری دیکھیں کہ ان سے محض 30 میل دور پرنسٹن یونیورسٹی میں رابرٹ ڈکی نامی فلکیات دان کی زیرِ نگرانی ایک ٹیم عرصے سے اسی چیز کو تلاش کرنے کی دھن میں تھی جس سے یہ دونوں چھٹکارا پانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک نظریے کے مطابق اگر ہم خلاء میں انتہائی دور دیکھیں تو ہمیں پس منظر میں بگ بینگ کی بچی کھچی تابکاری مل سکتی ہے۔ روسی سائنس دان جارج گیمو نے حساب لگایا تھا کہ اس انتہائی وسیع کائنات میں سفر کر کے جب یہ تابکاری ہم تک پہنچے گی تو شکل بدل کر مائیکرو ویو بن چکی ہوگی۔ ایک حالیہ مضمون میں گیمو نے یہ بھی اشارہ دیا تھا کہ پوری دنیا میں اگر کوئی اینٹینا یہ شعاعیں موصول کر سکتا ہے تو وہ بیل لیبارٹریز کا ہولمڈل والا یہی انٹینا ہے۔ بدقسمتی سے نہ تو رابرٹ اور پینزیاس اور نہ ہی پرنسٹن کی ٹیم نے یہ مضمون دیکھا تھا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں