مترجم:منصور محمد قیصرانی
ظاہر ہے کہ پینزیاس اور رابرٹ کا سامنا جس شور سے تھا وہ دراصل گیمو کی پیشین گوئی کے عین مطابق تھا۔ انہوں نے کائنات کا سرا دریافت کر لیا تھا جو 90 ارب کھرب میل دور تھا۔ یہ دراصل وہ ابتدائی فوٹان تھے جو کائنات کی ابتدائی روشنی تھے۔
وقت اور فاصلے کی وجہ سے وہ مائیکرو ویو میں بدل چکے تھے۔ اس امر کی وضاحت گیمو نے پہلے ہی کر دی تھی۔ ایلن گتھ نے اپنی کتاب Inflation Universe میں اس بات کی وضاحت کی ہے۔ اگر آپ کائنات کے دور دراز گوشوں میں جھانکنے کو ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کی 100ویں منزل پر کھڑے ہو کر نیچے دیکھنے سے تشبیہ دیں تو 100ویں منزل آج کو جبکہ زمین کی سطح بگ بینگ کو ظاہر کرتی ہے۔ ولسن اور پینزیاس کی دریافت سے قبل بعید ترین کہکشاں 60ویں منزل جبکہ بعید ترین کواسر 20ویں منزل پر تھا۔ ولسن اور پینزیاس کی دریافت ہمیں زمین کی سطح سے محض نصف انچ قریب لے گئی۔
اپنی لاعلمی کی وجہ سے ولسن اور پیزیاس نے پرنسٹن یونیورسٹی میں ڈکی کو فون کیا اور اپنا مسئلہ بتا کر مدد مانگی۔ ڈکی نے فوراً بھانپ لیا۔ فون رکھ کر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا، ‘بازی ہاتھ سے نکل گئی ہے’۔
کچھ عرصے بعد آسٹرو فزیکل جرنل میں دو مضامین چھپے۔ پہلا مضمون ولسن اور پینزیاس کا تھا جس میں انہوں نے اس نامعلوم شور کے بارے اپنی حیرت ظاہر کی تھی اور دوسرا ڈکی اور اس کی ٹیم کی جانب سے جس میں اس شور کی وضاحت کی گئی تھی۔ اگرچہ ولسن اور پینزیاس نہ تو اس شور کو تلاش کر رہے تھے اور نہ ہی جانتے تھے کہ انہوں کی کیا دریافت کیا ہے اور نہ ہی اس کی وضاحت کی، پھر بھی 1979 میں انہیں فزکس کا نوبل انعام ملا جبکہ پرنسٹن کے محققین کے پاس صرف لوگوں کی ہمدردیاں ہی آئیں۔ ڈینس اوربائی نے Lonly hearts of the cosmos میں بیان کیا ہے کہ پینزیاس اور ولسن کو اپنی دریافت کی اہمیت کا اندازہ تب ہوا جب انہوں نے اس کے بارے نیویارک ٹائمز میں پڑھا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اس شور سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ اپنے ٹی وی پر کوئی بھی ایسا چینل لگائیں جو موصول نہ ہو رہا ہو تو سکرین پر ناچتے دھبوں کا کم از کم ایک فیصد حصہ یہی تابکاری ہوتی ہے۔ اب جب آپ سوچیں کہ ٹی وی پر کچھ نہیں آ رہا تو درحقیقت آپ کائنات کی پیدائش کا منظر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
اگرچہ ہم سب بگ بینگ کو اسی نام سے جانتے ہیں لیکن بہت ساری کتب میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ کوئی عام نوعیت کا دھماکہ نہیں تھا بلکہ انتہائی بڑے پیمانے پر ہونے والا اچانک پھیلاؤ تھا۔ اس کی کیا وجہ ہوگی؟
ایک رائے یہ ہے کہ یہ اکائی دراصل پہلے سے موجود کائنات کے سکڑنے سے بنی تھی۔ یعنی مسلسل کائنات پھیل اور سکڑ رہی ہے ایسے ہی جیسے لوہار کی دھونکنی پھولتی اور پچکتی ہے۔ کچھ لوگ اسے False Vacuum, A scalar field یا Vacuum energy کا نام دیتے ہیں۔ چاہے یہ کوئی خاصیت ہو یا کوئی چیز، اس نے لامکان یعنی نتھنگ نیس میں عدم توازن پیدا کر دیا۔ اگرچہ کچھ نہ ہونے سے کچھ پیدا ہونا ناممکن لگتا ہے پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ عدم سے ہی ہماری کائنات وجود میں آئی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسا ہونا ممکن ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری کائنات دیگر بے شمار کائناتوں کا ایک معمولی سا حصہ ہو جو نامعلوم ابعاد میں پھیلی ہوئی ہوں؟ ہر وقت اور ہر جگہ بگ بینگ ہو رہے ہوں؟ یہ بھی ممکن ہے کہ وقت اور مکاں بگ بینگ سے قبل کچھ ایسی شکل میں ہوں جو ہم سمجھ نہ سکتے ہوں؟ ہو سکتا ہے کہ بگ بینگ دراصل ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقلی کا ہی نام ہو؟ جس میں کائنات ایک نامعلوم شکل سے ایسی شکل میں بدل گئی ہو جسے ہم سمجھ سکتے ہیں؟سٹین فورڈ کے ایک ماہر فلکیات نے 2001 میں نیو یارک ٹائمز میں کہا، ‘یہ سوال بہت حد تک مذہبی نوعیت کے لگتے ہیں’۔
بگ بینگ کا نظریہ ہمیں دراصل بگ بینگ کے بارے نہیں بلکہ اس کے فوراً بعد پیش آنے والے واقعات کے بارے بتاتا ہے۔ فوراً بعد سے مراد فوراً بعد ہی ہے۔ بہت سارے حساب کتاب اور پارٹیکل ایکسلریٹرز میں ہونے والے تعاملات کے مشاہدے کے بعد سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ بگ بینگ کے بعد 10-45سیکنڈ تک کے واقعات کے بارے جان گئے ہیں۔ اس وقت کائنات اتنی مختصر ہوگی کہ اسے دیکھنے کے لیے ہمیں خوردبین کی ضرورت پڑتی۔ اگرچہ ہر بڑی رقم دیکھ کر حیران ہونا اچھی بات نہیں لیکن دیکھتے ہیں کہ یہ 10x-45 کتنی بڑی رقم ہے۔
0.0000000000000000000000000000000000000000001۔ یعنی ایک سیکنڈ کے ایک اربویں، کھربویں کھربویں کھربویں حصے کے برابر (سائنس میں بہت بڑی یا بہت چھوٹی رقم لکھنے کے لیے ہم طاقت کا لفظ استعمال کرتے ہیں کیونکہ بصورت دیگر انہیں لکھنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ یعنی 10x 10 مساوی 100۔ اسے ہم1x102 کہیں گے۔ اسی طرح 1.4x109 مکعب کلومیٹر سے 1.4 ارب مکعب کلومیٹر مراد ہے ۔ جب ہم کائنات کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اسی طرح لکھنا پڑے گا)۔
ہم میں سے اکثر لوگ کائنات کے بارے آج جو بھی جانتے ہیں یا جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ سٹین فورڈ یعنی موجودہ ایم آئی ٹی کے جونیئر پارٹیکل فزسٹ ایلن گُتھ کے 1979 میں پیش کردہ نظریے کا مرہونِ منت ہے۔ اس کے اپنے الفاظ میں اس وقت اس کی عمر 32 سال تھی اور اس وقت تک اس نے کوئی تیر نہیں مارا تھا۔ اگر اس نے رابرٹ ڈکی کا بگ بینگ کے عنوان پر ہونے والا لیکچر نہ سنا ہوتا تو اسے شاید کبھی اس بات کا خیال تک نہ آتا۔ اس لیکچر کی وجہ سے اس کے دل میں کائنات کی ابتداء کے بارے جاننے کا شوق پیدا ہوا۔
اس کا نتیجہ ‘کائنات کا پھیلاؤ’ نظریے کی صورت میں نکلا۔ اس کے مطابق تخلیق کے فوراً بعد انتہائی مختصر عرصے میں کائنات میں عظیم پھیلاؤ واقع ہوا۔ یوں سمجھیں جیسے کائنات اپنے آپ سے فرار ہو رہی ہو۔ ہر 10-34 سیکنڈ میں کائنات کا حجم دُگنا ہوتا گیا۔ تاہم یہ سارا سلسلہ 10-30سیکنڈ میں ختم ہو گیا۔ یعنی ایک سیکنڈ کے ایک لاکھ لاکھ کھربویں حصے میں ہماری کائنات جو اس وقت ہماری ہتھیلی میں سما جاتی، سے 1000 کھرب کھرب گنا بڑی ہو گئی۔ یہ نظریہ ہمیں ان باتوں کے بارے بھی بتاتا ہے جس کی وجہ سے ہماری کائنات کی پیدائش ممکن ہوئی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہماری کائنات میں محض گیس اور تاریکی ہی ہوتی اور ستارے یا مادہ نہ پیدا ہو سکتے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں