مترجم:منصور محمد قیصرانی
ٹومباغ نے اگرچہ فلکیات کی باقاعدہ تربیت تو نہیں لی تھی لیکن اس کا حوصلہ بلند تھا اور ایک سال کی محنت کے بعد اس نے پلوٹو دریافت کر لیا۔ یہ دریافت معجزہ تھی اور اس کا دوسرا پہلو لوؤل کی جانب سے بیان کردہ تفصیلات کے عین برعکس ہونا ہے۔ ٹومباغ فوراً ہی پہچان گیا تھا کہ یہ نیا سیارہ بالکل بھی گیسی دیو نہیں۔ لیکن اس سیارے کے بارے اس کی رائے پر کسی نے توجہ نہیں دی کیونکہ پلوٹو کی دریافت بذاتِ خود انتہائی اہم خبر تھی۔ امریکہ میں دریافت ہونے والا یہ پہلا سیارہ تھا۔ اس لیے اس امر پر کسی نے توجہ نہیں دی کہ یہ سیارہ محض برفیلا نقطہ ہے جو انتہائی دور واقع ہے۔ پلوٹو کے نام کے پہلے دو حروف لوؤل کے نام کے ابتدائی ہجے ہیں۔ ہر کسی نے لوؤل کی بعد از مرگ تعریف کرنا شروع کر دی کہ وہ کتنا عظیم ماہر فلکیات تھا۔ ماہرین فلکیات کے سوا زیادہ تر لوگوں کو ٹومباغ کا نام تک بھول گیا۔
بعض فلکیات دانوں نے پھر بھی سیارہ ایکس کی تلاش کا کام جاری رکھا۔ ان کے خیال میں مشتری سے کم از کم دس گنا بڑا یہ سیارہ سورج سے کم از کم 45 کھرب میل دور ہوگا۔ تاہم اس کی دریافت ابھی تک نہیں ہو پائی۔ اس کی شکل زحل یا مشتری سے بہت مختلف ہوگی۔ یوں سمجھیں کہ یہ سیارہ ایک ستارہ تھا جو سورج بنتے بنتے رہ گیا ہو۔ زیادہ تر نظامِ شمسی دو ستاروں سے بنے ہیں۔ اس وجہ سے ہمارا ایک سورج والا نظامِ شمسی کچھ عجیب سا لگتا ہے۔
جہاں تک پلوٹو کا سوال ہے تو کوئی نہیں جانتا کہ پلوٹو کس چیز سے بنا ہے یا اس کی فضاء کیسی ہوگی یا یہ ہے کیا۔ بہت سارے فلکیات دان کے خیال میں پلوٹو سیارہ نہیں بلکہ کوئیپر پٹی میں موجود اجرامِ فلکی میں سے ایک ہے۔ کوئیپر بیلٹ یا پٹی کا نظریہ 1930 میں ایک فلکیات دان ایف سی لیونارڈ نے پیش کیا تھا لیکن اس کا نام ولندیزی نژاد امریکی فلکیات دان جیرارڈ کوئیپر کے نام پر رکھا گیا ہے جس نے اس نظریے کو توسیع دی۔ اس پٹی میں ایسے دمدار ستارے ہیں جو باقاعدگی سے اندرونی نظامِ شمسی کا چکر لگاتے رہتے ہیں۔ ان میں مشہور ترین ہیلی کا دمدار ستارہ ہے۔ طویل المدتی دمدار ستارے اس سے بھی کہیں زیادہ دور اُوورت بادل سے آتے ہیں۔
یہ بات بجا ہے کہ پلوٹو عام سیاروں سے بہت فرق ہے۔ نہ صرف بہت چھوٹا اور غیر واضح ہے بلکہ اس کا مدار بھی کچھ اس نوعیت کا ہے کہ ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ آج سے سو سال بعد پلوٹو کہاں ہوگا۔ دوسرے سیارے ایک خاص محور پر گردش کرتے ہیں جبکہ پلوٹو ان سے 17 درجے ہٹ کر گردش کرتا ہے۔ یوں سمجھیں کہ جیسے ہیٹ کا کنارہ ہوتا ہے۔ اس کا مدار اتنا بے قاعدہ ہے کہ کافی عرصہ تک پلوٹو نیپچون کی نسبت سورج سے زیادہ قریب رہتا ہے۔ 1980 اور 1990 کی دہائیوں کا زیادہ تر وقت نیپچون ہمارے نظامِ شمسی کا سب سے دور افتادہ سیارہ تھا۔ 11 فروری 1999 کو پلوٹو واپس دور دراز سیارے کے درجے پر پہنچا جہاں وہ اگلے 228 سال تک رہے گا۔
اب اگر پلوٹو سیارہ ہے بھی تو بہت عجیب سیارہ ہے۔ اس کی جسامت زمین کے ایک فیصد کا ایک چوتھائی ہے۔ اگر آپ اسے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نقشے پر رکھیں تو زیریں 48 ریاستیں بھی پوری طرح نہیں چھپ سکیں گی۔ یہ بات بھی انتہائی عجیب ہے کہ ہمارے نظامِ شمسی کے اندرونی چار سیارے چٹانوں، دوسرے چار سیارے گیسی دیو اور پھر ایک برفانی کرہ یعنی پلوٹو پر مشتمل ہے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں پلوٹو کے آس پاس کے علاقے سے مزید ایسے برفانی کرے دریافت ہو جائیں تو مسئلہ اور بھی گھمبیر ہو جائے گا۔ جب کرسٹی نے پلوٹو کا چاند دریافت کیا ہے اس کے بعد سے فلکیات دانوں نے اس جگہ کا بغور مشاہدہ شروع کر دیا ہے اور دسمبر 2002 تک مزید چھ ایسے اجسام تلاش کر لیے ہیں جو نیپچون اور پلوٹو کے درمیان واقع ہیں۔ ان میں سے ایک تو پلوٹو کے چاند جتنا بڑا ہے۔ فلکیات دانوں کے خیال میں اس جگہ ہو سکتا ہے کہ ایسے ایک ارب اجرامِ فلکی گھوم رہے ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت بہت تاریک ہے۔ عام طور پر ان کی روشنی منعکس کرنے کی صلاحیت محض 4 فیصد ہوتی ہے جو کوئلے کے برابر ہے۔ اب لطف کی بات یہ ہے کہ ‘کوئلے’ کے یہ ڈھیر ہم سے 4 ارب میل دور ہیں۔
4 ارب میل کتنا بڑا فاصلہ ہے، اس کا اندازہ کرنا عام طور پر ممکن نہیں۔ خلاء بہت وسیع ہے۔ اس کو یوں سمجھتے ہیں کہ ہم راکٹ میں بیٹھ کر سفر پر نکلتے ہیں۔ ہمارا سفر زیادہ طویل نہیں بلکہ ہم محض نظامِ شمسی کے سرے تک ہی جائیں گے۔ اس سے ہمیں پتہ چلے گا کہ خلاء کتنی وسیع ہے اور ہمارا نظامِ شمسی کتنا چھوٹا ہے۔
ایک بری خبر۔ رات کو کھانے پر واپس لوٹنا ممکن نہیں ۔ اگر ہم روشنی کی رفتار سے بھی نکلیں تو پلوٹو تک پہنچنے میں 7 گھنٹے لگیں گے۔ تاہم روشنی کی رفتار کو پہنچنا ممکن نہیں۔ انسانی تیار کردہ اجسام میں وائجر اول اور دوم تیز ترین ہیں۔ اس وقت 35،000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے یہ ہم سے دور جا رہے ہیں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں