اگست اور ستمبر 1977 میں دونوں وائجروں کو روانہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت مشتری، زحل، یورانس اور نیپچون اس طرح سیدھی قطار میں آ رہے تھے جو ہر 175 سال بعد ممکن ہوتا ہے۔ اس طرح انہیں تجاذبی مدد یعنی گریوٹی اسسٹ ملی جس سے ان کی رفتار بہت بڑھ گئی۔ اس تکنیک میں ایک سیارے کی کشش کو استعمال کرتے ہوئے دوسرے سیارے تک جاتے ہیں۔ اس کے باوجود یورانس تک پہنچے پہنچے 9 سال جبکہ پلوٹو تک 12 سال لگے۔ 2006 کے جنوری میں نیو ہورائزن نامی جہاز کو پلوٹوکی طرف روانہ کرتے وقت ہمیں سائنسی ترقی اور سیاراتی مقامات کا فائدہ پہنچا اور امید ہے کہ تقریباً دس سال کے بعد یہ خلائی جہاز پلوٹو تک پہنچ جائے گا۔ تاہم واپسی کہیں زیادہ وقت لے گی۔ مجھے شک ہے کہ ہمارا سفر کچھ زیادہ ہی لمبا ہو جائے گا۔
خلاء میں پہنچ کر سب سے پہلے آپ کو احساس ہوگا کہ خلاء میں جگہوں کے نام تو بکثرت ہیں جبکہ اجرام فلکی بہت کم۔ شاید کھربوں میل کے دائرے میں ہمارا نظامِ شمسی ہی واحد متحرک نظام ہے۔ لیکن ہمارا سورج، سیارے، ان کے چاند، سیارچے اور اربوں کی تعداد میں شہاب ثاقب وغیرہ کو ملا کر بھی اس ساری خلاء کا محض کھربواں حصہ بنتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی احساس ہو جائے گا کہ درسی نقشے وغیرہ حقیقت سے بہت ہٹ کر بنتے ہیں۔ تدریسی نصاب میں چارٹ پر ترتیب سے جو سیارے دکھائی دیتے ہیں، ایسا ممکن نہیں اور نہ ہی بڑے سیارے ایک دوسرے سے اتنے قریب ہوتے ہیں۔ اس غلط بیانی کا مقصد محض اتنا ہوتا ہے کہ سارا نظامِ شمسی ایک کاغذ پر پورا آ جائے۔ نیپچون مشتری سے کچھ دور نہیں بلکہ ان کا درمیانی فاصلہ زمین اور مشتری کے درمیانی فاصلے سے 5 گنا زیادہ ہے۔ اتنی دور ہونے کی وجہ سے مشتری کی نسبت نیپچون کو محض تین فیصد سورج کی روشنی ملتی ہے۔
یہ فاصلے اتنے بڑے ہیں کہ نقشے کو درست تناسب سے بنانا ممکن ہی نہیں۔ چاہے ہم کتنے ہی صفحات مسلسل چپکاتے جائیں۔ اگر ہم نظامِ شمسی کا ایسا نقشہ بنائیں جس میں زمین کا حجم مٹر کے دانے برابر ہو تو مشتری ہم سے 1000 فٹ دور ہوگا اور پلوٹو کوئی ڈیڑھ میل اور اس کا حجم محض ایک بیکٹریا جتنا ہوگا۔ اگر مشتری کو ایک نقطے کے برابر دکھایا جائے تو پلوٹو ایک مالیکیول جتنا اور 35 فٹ دور ہوگا۔
یعنی ہمارا نظامِ شمسی بہت وسیع ہے۔ جب ہم پلوٹو تک پہنچیں گے تو ہمارا پیارا سورج ، جس سے ہمیں حرارت اور روشنی ملتی ہے، محض سوئی کی نوک سے ذرا بڑا ہوگا۔ یعنی عام ستاروں سے کچھ زیادہ روشن۔ اتنے فاصلے سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کئی اہم چیزیں مثلاً پلوٹو کا چاند دریافت کرنا کیوں اتنا مشکل ہے۔ پلوٹو کو چھوڑیں، وائجر سے قبل ہمارے علم میں نیپچون کے دو چاند تھے۔ وائجر نے چھ مزید دریافت کیے ۔ جب میں بچہ تھا تو اس وقت ہمارے نظامِ شمسی میں معلوم چاندوں کی تعداد 30 تھی۔ اب یہ تعداد کم از کم 90 ہو چکی ہے جس کی ایک تہائی محض پچھلے 10 سال میں دریافت ہوئی ہے۔
یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ جب ہم کائنات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنے نظامِ شمسی کا بھی پوری طرح علم نہیں ہوتا۔ جب ہم پلوٹو کے پاس سے گزریں گے تو ہمیں بس یہی دکھائی دے گا کہ ہم پلوٹو کے پاس سے گزر رہے ہیں۔ اگر آپ نقشے کو دیکھیں تو ہمارا نظامِ شمسی اسی جگہ ختم ہو رہا ہے۔ نقشے پر پلوٹو ہمارے نظامِ شمسی کا آخری سیارہ سہی، ہمارا نظامِ شمسی یہاں ختم نہیں ہوتا۔ جب تک ہم اُوورت بادل کو عبور نہ کر لیں، ہمارا نظامِ شمسی جاری رہے گا۔ اس بادل میں دمدار ستارے ہوتے ہیں۔ اس کے اختتام تک پہنچے پہنچے ہمیں مزید 10,000سال لگیں گے۔ سکولوں میں موجود درسی نقشہ جات کے برعکس پلوٹو ہمارے نظامِ شمسی کے آخری سرے تک کے فاصلے کا محض 50,000 واں حصہ ہے۔
ظاہر ہے کہ اتنا لمبا سفر ممکن نہیں۔ چاند تک کا محض 2,40,000 میل کا سفر ابھی تک ہمارے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے۔ صدر بش اول نے شاید دکھاوے کے لیے مریخ پر انسان بردار جہاز بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔ ایک تحقیق کے مطابق اس سفر پر کم از کم 450 ارب ڈالر خرچ ہوں گے اور قوی امید ہے کہ سارے خلاء باز مر جائیں گے (ان کا ڈی این اے شمسی تابکاری کی وجہ سے تباہ ہو جائے گا)۔
ہمارے موجودہ علم کے مطابق کوئی بھی انسان نظامِ شمسی کے آخری سرے تک کا سفر کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ فاصلہ انتہائی طویل ہے۔ ہبل دوربین کی مدد سے ہم ابھی تک اُوورت بادل تک نہیں دیکھ پائے کہ آیا ہے بھی یا نہیں۔ اس کی موجودگی ابھی تک خیالی اور فرضی ہے۔ اس کا اصل نام اوپک اُوورت بادل ہے جو استونین فلکیات دان ارنسٹ اوپک اور ولندیزی ماہر فلکیات جان اُوورت کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اوپک نے 1932 میں اس بادل کی موجودگی کا نظریہ پیش کیا تھا جسے 18 سال بعد اُوورت نے ریاضیاتی طور پر بہتر بنایا۔
اس بارے محض یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اُوورت بادل پلوٹو کے بعد کہیں شروع ہوتا ہے جو تقریباً دو نوری سال چوڑا ہے۔ نظامِ شمسی میں فاصلے کو ماپنے کی اکائی آسٹرانومیکل یونٹ یعنی فلکیاتی اکائی ہے۔ یہ فاصلہ زمین سے سورج کے فاصلے کے برابر ہے۔ ہمارا اور پلوٹو کا درمیانی فاصلہ 40 فلکیاتی اکائیوں کے برابر ہے۔ اُوورت بادل کے مرکز تک کا فاصلہ 50,000 فلکیاتی اکائیوں کے برابر ہے۔ یعنی اوورت بادل انتہائی وسیع ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں