مترجم:منصور محمد قیصرانی
فرض کریں کہ ہم اوورت بادل تک پہنچ گئے ہیں۔ سب سے پہلی بات جو آپ کو محسوس ہوگی وہ یہ کہ یہاں بہت سکون ہے۔ اس وقت ہم ایک طرح سے لامکاں تک پہنچ گئے ہیں۔ ہمارا سورج اب آسمان پر سب سے روشن ستارہ نہیں رہا۔ اندازہ کریں کہ روشنی کا ننھا سا نقطہ اتنے بڑے اور وسیع نظامِ شمسی کو اپنی کشش سے باندھے ہوئے ہے۔ تاہم اس جگہ سورج کی کشش بہت کمزور پڑ چکی ہے اور دمدار ستارے محض 220 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے تیر رہے ہیں۔ بعض اوقات اس کشش میں خلل پڑنے یا کسی ستارے کے پاس سے گزرنے کی وجہ سے یہ دمدار ستارے اپنے مدار سے نکل کر یا تو خلاء کی وسعتوں میں ہمیشہ کے لیے کھو جاتے ہیں یا پھر نظامِ شمسی کے مرکز کا رخ کرتے ہیں۔ اس نوعیت کے 3 یا 4 طویل مدتی دمدار ستارے ہر سال ہمارے نظامِ شمسی کے مرکز کا رخ کرتے ہیں۔ کبھی کبھار یہ دمدار ستارے کسی ٹھوس جسم جیسا کہ زمین وغیرہ سے ٹکرا جاتے ہیں۔ اب ہم اس جگہ اس دمدار ستارے کو دیکھنے آئے ہیں جس نے ابھی ابھی نظامِ شمسی کے مرکز کا رخ کیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ ستارہ زمین پر کسی بھی جگہ جا گرے۔ تاہم اس کا سفر بہت طویل ہے اور 30 یا 40 لاکھ سال بعد زمین تک پہنچے گا۔ اس کا تذکرہ آگے چل کر آئے گا۔
یہ ہمارا نظامِ شمسی ہے۔ اس سے پرے کیا ہوگا؟ کچھ بھی نہیں اور بہت کچھ بھی۔ آپ کی مرضی جس طرح سے دیکھیں۔
مختصر الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی بنائی ہوئی خلاء بھی اتنی خالی نہیں جتنی ستاروں کے درمیان کی جگہ خالی ہے۔ اس طرح بہت طویل فاصلے تک خالی خلاء کے بعد جا کر پھر کچھ خاص آتا ہے۔ کائنات میں ہمارے نظامِ شمسی کے نزدیک ترین موجود ستارہ پراکسیما سینچاؤری ہے جو الفا سنچاؤری نامی تین ستاروں کے نظام کا حصہ ہے۔ یہ ستارہ ہم سے کوئی 4,3 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ کائنات میں یہ فاصلہ کچھ بھی نہیں لیکن چاند تک کے سفر سے یہ دس کروڑ گنا بڑا ہے۔ خلائی جہاز سے ہمیں اس تک پہنچنے میں کم از کم 25,000 سال لگیں گے۔ اگر ہم وہاں تک پہنچ بھی گئے تو یہی دکھائی دے گا کہ خالی خلاء میں تین ستارے موجود ہیں۔ اگلی منزل ہمارے لیے سائریس ہوگی جو مزید 4,6 نوری سال کے فاصلے پر ہوگا۔ اسی طرح ہم ایک ستارے سے دوسرے ستارے پر چھلانگ لگاتے ہوئے کائنات میں سفر کر سکتے ہیں۔ ہماری اپنی کہکشاں کے مرکز تک پہنچنے میں جتنا وقت لگے گا وہ وقت انسان کے بطور نوع جنم لینے سے کہیں زیادہ ہے۔
میں ایک بار پھر کہوں گا کہ خلاء انتہائی وسیع ہے۔ دو ستاروں کا درمیانی اوسط فاصلہ 2,000 کھرب میل ہے۔ روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے بھی یہ فاصلے بہت بڑے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات ممکن تو ہے کہ خلائی مخلوق اتنے دور سے ہماری زمین پر لوگوں کو ڈرانے یا فصلی دائرے بنانے آئے لیکن اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہی ہیں۔
اتنے فاصلوں کے باوجود بھی خلائی مخلوق کے امکانات بہت روشن ہیں۔ ہماری کہکشاں میں موجود ستاروں کی تعداد کے بارے اندازہ ہے کہ 100 سے 400 ارب ستارے ہیں۔ ہماری کہکشاں 140 ارب یا اس سے زیادہ کہکشاؤں میں سے ایک ہے جن میں سے بہت سی ہماری کہکشاں سے کہیں زیادہ بڑی ہیں۔ 1960 میں کورنل کے پروفیسر فرینک ڈریک نے مختصر ہوتے امکانات کی بنیاد پر اپنی مشہورِ زمانہ مساوات پیش کی۔
ڈریک کی مساوات کے مطابق ہر کہکشاں کے ستاروں کی کل تعداد کو ہم اس عدد سے تقسیم کرتے ہیں جن کے بارے ہمیں اندازہ ہو کہ ان کے سیارے ہو سکتے ہیں۔ حاصل جواب کو ہم اس عدد سے تقسیم کریں گے کہ جن سیاروں پر زندگی کے امکانات ہوں۔ حاصل جواب کو ہم اس عدد سے تقسیم کریں گے کہ جن سیاروں پر نہ صرف زندگی پیدا ہوئی بلکہ اس نے ذہانت کے درجے کو بھی پا لیا۔ کم سے کم اعداد دینے کے باوجود بھی ہماری کہکشاں میں ذہین مخلوق رکھنے والے ممکنہ سیاروں کی تعداد دسیوں لاکھ ہے۔
کتنی عمدہ سوچ ہے نا؟ ہو سکتا ہے کہ لاکھوں ذہین مخلوقات میں سے ہم ایک ہوں۔ بدقسمتی سے خلاء اتنی وسیع ہے کہ ہر دو ایسی مخلوقات کے درمیان موجود فاصلہ کم از کم 200 نوری سال کی اوسط کے برابر ہے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اگر کسی ایسی مخلوق کو ہمارے وجود کا علم ہو جائے اور وہ اپنی دوربینیں ہماری طرف مرکوز کریں تو انہیں ہم دکھائی نہیں دیں گے بلکہ 200 سال پرانا زمانہ دکھائی دے رہا ہوگا جب لوگ ریشمی کپڑے پہنے اور وگیں لگائے پھر رہے ہوں گے جنہیں نہ تو جین اور نہ ہی ایٹم کا علم ہوگا اور ان کے نزدیک شیشے کی سلاخ کو ریشمی کپڑے سے رگڑنے سے بجلی پیدا کرنا کمال فن ہوگا۔ 200 سال حقیقتاً انتہائی بڑا فاصلہ ہے۔
اسی وجہ سے جب فروری 1999 میں بین الاقوامی فلکیاتی یونین نے پلوٹو کو سیارہ تسلیم کر لیا تو ہمارے لیے ایک طرح سے خوش خبری ہی تھی۔ کائنات بہت وسیع ہے اور جتنے ہمسائے ہوں، اتنا ہی بہتر محسوس ہوگا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں