مترجم: منصور محمد قیصرانی
خوش آمدید۔ اور مبارکباد۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ یہاں تک پہنچ ہی گئے۔ یہاں تک پہنچنا آسان نہیں تھا۔ درحقیقت میرا خیال ہے کہ آپ کو بالکل بھی اندازہ نہیں کہ یہاں تک پہنچنا کتنا مشکل کام ہے۔
خوش آمدید۔ اور مبارکباد۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ یہاں تک پہنچ ہی گئے۔ یہاں تک پہنچنا آسان نہیں تھا۔ درحقیقت میرا خیال ہے کہ آپ کو بالکل بھی اندازہ نہیں کہ یہاں تک پہنچنا کتنا مشکل کام ہے۔
سب سے پہلے تو کھربوں کی تعداد میں ایٹموں کا انتہائی عجیب طور پر جمع ہو کر آپ کو تشکیل دینا ایک معجزہ ہے۔ درحقیقت یہ اجتماع اتنا ممنفرد ہے کہ نہ تو آپ سے قبل کبھی یہ سارے ایٹم اس طرح جمع ہوئے اور نہ ہی آپ کے بعد کبھی جمع ہوں گے۔ اگلے بہت سالوں تک یہی سارے ایٹم اسی طرح جمع رہتے ہوئے آپ کو زندہ اور چلتا پھرتا رکھیں گے اور اس سارے معجزے کو آپ ‘وجود‘ کہتے ہیں۔
یہ بات ابھی تک معمہ ہے کہ ایٹم ایسا کیوں کرتے ہیں۔ ایٹمی پیمانے پر انسان یا وجود کی کوئی اہمیت نہیں۔ آپ کو بنانے کے باوجود ایٹموں کو نہ تو آپ کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی آپ کے وجود کا علم ہوتا ہے۔ انہیں تو یہ بھی علم نہیں ہوتتا کہ ان کا اپنا وجود بھی ہے یا نہیں۔ ان کا دماغ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ خود زندہ ہوتے ہیں (اگر آپ انتہائی باریک چمٹی سے اپنے جسم سے ایک ایک کر کے تمام ایٹم نوچنا شروع کر دیں تو آخر میں آپ کے پاس ایٹمی گرد کا انبار ہوگا لیکن یہ تمام ایٹم غیر جاندار ہوتے ہوئے بھی کبھی آپ جیسے جاندار کا حصہ تھے)۔ تاہم آپ کی زندگی کے دوران انن کا واحد کام آپ کو زندہ رکھنا ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ ایٹم بے وفا ہوتے ہیں اور ایک جگہ زیادہ دیر نہیں رکتے۔ ایک عام انسان کی زندگی کا دورانیہ اوسطاً ساڑھے چھ لاکھ گھنٹے ہوتا ہے۔ جب یہ دورانیہ یا آپ کی زندگی ختم ہوتی ہے تو یہ تمام ایٹم ایک دم سے آپ کے وجود کو ختم کر کے دوسری چیزوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ آپ کا قصہ یہیں تمام ہو جاتا ہے۔
پھر بھی آپ کو خوش ہونا چاہئے کہ ایسا ہوتا تو ہے۔ عام طور پر کائنات میں ایسا نہیں ہوتا۔ کم از کم اب تک کی معلومات کے مطابق وہ تمام ایایٹم جو جمع ہو کر زمین پر مختلف جاندار بناتے ہیں، عین اسی طرح کے ایٹم کائنات کے دوسرے حصوں میں ہوتے ہوئے بھی ایسا نہیں کرتے۔ چاہے کچھ بھی ہو، کیمیائی اعتبار سے زندگی بہت عام سی بات ہے۔ کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن اورر نائٹروجن، تھوڑی سی کیلشیم، چٹکی بھر سلفر یعنی گندھک اور دیگر عام اجزاء کی معمولی سی مقدار، غرض ہر وہ چیز جو آپ کو عام فارمیسی میں مل جائے گی، سے زندگی جنم لیتی ہے۔ جو ایٹم آپ کو بناتے ہیں، ان کی خاص بات ہی یہی ہے کہ وہ آپ کو بناتے ہیں۔ اسے زندگی کا معجزہ کہتے ہیں۔
چاہے کائنات میں دوسری جگہوں پر ایٹم زندہ مخلوقات بناتے ہوں یا نہ بناتے ہوں، لیکن ہر چیز ایٹموں سے ہی بنتی ہے۔ ان کے بغیر نہ تو پاپانی ہوگا اور نہ ہی پتھر اور نہ ہی ستارے اور سیارے، نہ ہی کہکشائیں اور نہ ہی نیبولا اور نہ ہی کائنات کا کوئی اور جرمِ فلکی۔ ایٹم اتنے اہم اور اتنے زیادہ ہیں کہ عام طور پر ہم ان کے وجود کو بھلا دیتے ہیں۔ ایسا کوئی قانونِ فطرت نہیں ہے کہ کائنات کو اپنے اندر زندگی کے لیے ضروری روشنی، مادہ، کششِ ثقل یا کچھ اور پیدا کرنا ہو۔ اصولی طور پر تو کائنات کے ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں۔ ببہت طویل عرصے تک ایسا ہی تھا کہ نہ تو کائنات تھی اورور نہ ہی اس میں موجود ایٹم۔ کہیں بھی کچھ بھی نہیں تھا۔
اس لیے شکر ہے کہ ایٹم ہیں۔ تاہم اس حقیقت کے باوجود کہ ایٹموں نے جمع ہو کر آپ کو بنایا، یہ اصل داستان کا محض ایک حصہ ہے۔ یہاں، اکیسویں صدی میں پیدا ہونے کے لیے آپ کو حیاتیاتی خوش قسمتی کی انتہائی لمبی زنجیر کا حصہ ہونا بھی لازمی ہے۔ زمین پر زندہ رہنا اتنا بھی آسان نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وقت کے آغاز سے اب تک جنم لینے والی کھربہا انواع میں سے 99.99 فیصد انواع اب موجود نہیں۔ زمین پر زندگی نہ صرف مختصر بلکہ انتہائی معمولی حیثیت رکھتی ہے۔ عجیب بات دیکھئے کہ ہم جس سیارے پر رہتے ہیں، زندگی کو پروان چڑھانے کے لیے جتنا سازگار ہے، اس سے زیادہ اسے ختم کرنے کے لیے بھی سازگار ہے۔ اوسطاً ایک نوع زمین پر چالیس لاکھ سال تک زندہ رہتی ہے۔ اگر آپ اربہا سال تک اپنا وجود برقرار رکھنا چاہتے ہوں تو پھر آپ کو ایٹم ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ آپ کو ہر ممکن تبدیلی کو اپنانا ہوگا، چاہے وہ شکل ہو، حجم ہو، رنگ ہو یا کسی قسم کی پسند و ناپسند۔ اس تبدیلی کا عمل کہنے کی حد تک آسان ہے کیونکہ یہ تبدیلی کسی ترتیب سے نہیں ہوتی۔ زندگی کی قدیم ترین خوردبینی شکل سے لے کر موجودہ دور کے انسان تک، جانداروں کو انتہائی لمبے عرصے تک بروقت اور انتہائی مخصوص قسم کی جینیاتی تبدیلیاں لانی پڑی ہیں۔ لگ بھگ پچھلے چار ارب سال سے جانداروں کو پہلے آکسیجن سے نفرت اور پھر اسے برداشت کرنے، فِن اور ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضاء میں تبدیلی، انڈے دینا، دو مونہی زبان، چکنی جلد، بالدار کھال، زیرِ زمین رہنا، درختوں پر رہنا، ہرن جتنا بڑا یا چوہے جتنا چھوٹا ہونا اور لاکھوں دیگر کام کرنے پڑے۔ ان ارتقائی تبدیلیوں سے بال برابر بھی فرق پڑنے سے عین ممکن ہے کہ آپ اس وقت غار کی دیواروں سے الجی چاٹ رہے ہوتے یا والرس کی طرح پتھریلی زمین پر لوٹنیاں لگا رہے ہوتے یا سمندر میں وہیل کی شکل میں اپنے سر کے پیچھے موجود شگاف سے پانی اچھال کر پھر ساٹھ فٹ گہرا غوطہ لگا رہے ہوتے۔
نہ صرف یہ کہ وقت کی ابتداء سے آپ مخصوص ارتقائی لڑی سے جڑے رہے بلکہ آپ کے آباؤ ااجداد کے حوالے سے بھی آپ معجزانہ طور پر خوش قسمت ہیں۔ سوچئے کہ تقریباً چار ارب سال سے آپ کے آباؤ اجداد میں تمام نر اور مادہ اتنے خوش شکل تھے کہ انہیں جوڑے ملے، اتنے صحت مند تھے کہ جنسی تولید کر سکیں اور قسمت اور حالات کی مہربانی سے وہ اتنا عرصہ زندہ بھی رہے اور اپنی نسل آگے بڑھائی۔ سوچئے، اگر ہمارے آباؤ اجداد میں سے ایک فرد بھی اگر افزائشِ نسل سے پہلے کچلا، کھایا، ڈوبا، بھوکا مرتا، کہیں مشکل جگہ پھنسا، زخمی یا کسی وجہ سے بھی مرنے سے قبل اپنے جینیاتی مواد کو ٹھیک وقت پر اپنے جوڑے تک منتقل نہ کر پایا ہوتا اور یہ سلسلہ اسی طرح نہ چلتا آیا ہوتا تو سوچئے کہ آپ یہاں نہ ہوتے۔
یہ کتاب آپ کو بتائے گی کہ ایسا کیسے ہوا، عدم سے وجود کیسے پیدا ہوا، پھر اس وجود سے ہم کیسے بنے اور اس دوران اور کیا کیا واقع ہوا۔ تاہم تفصیل انتہائی زیادہ ہے اور اسی وجہ سے اس کتاب کا نام ‘تقریباً ہر چیز کی مختصر تاریخ’ رکھا گیا ہے جو کہ کسی حد تک غلط ہے۔ ہر چیز کے بارے معلوممات دینا ممکن ہی نہیں۔ تاہم جب ہم یہ کتاب پوری کر لیں گے تو آپ کو ایسا لگے گا کہ شاید اب آپ تقریباً ہر چیز کے بارے کچھ نہ کچھ جانتے ہیں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں