مترجم:منصور محمّد قیصرانی
میری تلاش کا نکتہ آغاز میری چوتھی یا پانچویں جماعت کی ایک درسی کتاب تھی۔ 1950 کی دہائی کی عام درسی کتب کی مانند یہ کتاب بھی ثثقیل اور ناقابلِ فہم زبان میں لکھی گئی تھی اور شاید ہی کسی کو پسند آئی ہو۔ تاہم اس کی ابتداء میں زمین کی ایک تصویر تھی۔ جیسے کسی نے چاقو سے ز زمین کے اندر سے ایسے قاش نکالی ہو جیسے ہم تربوز سے نکالتے ہیں۔
میری تلاش کا نکتہ آغاز میری چوتھی یا پانچویں جماعت کی ایک درسی کتاب تھی۔ 1950 کی دہائی کی عام درسی کتب کی مانند یہ کتاب بھی ثثقیل اور ناقابلِ فہم زبان میں لکھی گئی تھی اور شاید ہی کسی کو پسند آئی ہو۔ تاہم اس کی ابتداء میں زمین کی ایک تصویر تھی۔ جیسے کسی نے چاقو سے ز زمین کے اندر سے ایسے قاش نکالی ہو جیسے ہم تربوز سے نکالتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ میں نے ایسی تصویر بہت بار دیکھی ہوگی، لیکن اس کتاب نے جیسے مجھے جکڑ لیا ہو۔ شروع میں میری سوچ یہ تھی کہ جیسے بہت بڑی تعداد میں لوگ مشرقی ریاستوں کو جا رہے ہوں جہاں اچانک قطب شمالی سے وسطی امریکہ کے دررمیان 4٫000 میل طویل اور بہت اونچا پہاڑی سلسلہ ان کو روک لیتا ہے۔ تاہم پھر میں نے اس تصویر کے نیچے پڑھا کہ ہماری زمین کی مختلف تہیں ہیں اور عین درمیان میں لوہے اور نکل کا دہکتا ہوا گولہ موجود ہے جس کا درجہ حرارت سورج کی سطح جتنا ہے۔ میں اس وقت حیرت سے یہ یہی سوچ رہا تھا، ‘آخر انہیں یہ سب کیسے پتہ چلا؟
مجھے ان معلومات کی درستگی پر ہلکا سا بھی شبہ نہیں تھا۔ آج بھی میں سائنس دانوں کے انکشافات پر اسی طرح یقین کرتا ہوں جیسا میں کسی سرججن، پلمبر یا دوسرے ماہرین پر کرتا ہوں۔ تاہم مجھے یہ بات سمجھ نہیں آ سکی کہ انہیں یہ کیسے پتہ چلا کہ ہزاروں میل نیچے زمین کے اندر کیا ہے، جسے کبھی کسی انسانی آنکھ نے نہیں دیکھا اور نہ ہی کوئی ایکسرے وہاں تک پہنچ سکتی ہے؟ میں اسے معجزہ سمجھتا رہا۔ اس وقت سے سائنس کے بارے میں یہی خیال رکھتا ہوں۔
خوشی خوشی میں یہ کتاب گھر لے گیا اور رات کو کھانے کی میز پر جب میں نے یہ کتاب ککھولی تو میری ماں کو فکر لاحق ہوئی کہ میں بیمار توتو نہیں۔ پھر میں نے کتاب کو پڑھنا شروع کیا۔
یہیں سے مسئلہ شروع ہوا۔ کتاب انتہائی خشک نکلی۔ اسے سمجھنا ممکن ہی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ تصویر دیکھ کر میرے ذہن میں جو سوالات پیدا ہوئے، کسی کا جواب بھی اس کتاب سے نہیں مل سکا۔ مثلاً ہماری زمین کے اندر یہ چھوٹا سا سورج کیسے آن پہنچا اور سائنس دانوں کو اس بارے کیسے علم ہوا؟ اگر ہماری زمین کے عین وسط میں سورج جل رہا ہے تو ہمیں زمین گرم کیوں نہیں لگتی؟ زمین کا مرکزہ پگھل کیوں نہیں جاتا؟ اگگر یہ مرکزہ کسی دن جل کر ختم ہو گیا تو کیا ہماری زمین میں کہیں بہت بڑا سوراخ پیدا ہو جائے گا؟ آخر یہ بات کیسے پتہ چلی؟
تاہم ایسی باتوں کے بارے مصنف بالکل خاموش رہا۔ اس کا سارا زور زمین کی سطح کے نشیب و فراز، محوری گردش اور اسی طرح کی چیزوں پر تھا۔ مجھے ایسے لگا کہ جیسے مصنف ہر اہم اور دلچسپ بات کو چھپانے کی نیت سے اسے ناقابلِ فہم زبان میں پیش کر رہا ہو۔ وقت گزرتا رہا اور مجھے گمان ہونے لگا کہ یہ محض میری کیفیت نہیں بلکہ دیگر لوگ بھی ایسے سوچتے ہیں۔ ایسے محسوس ہونے لگا جیسے پوری دنیا کی درسی کتب کے مصنفین کا ایک ہی مقصد ہے کہ وہ درسی کتب کو ہر ممکن طور پر ناقابلِ فہم بنائیں اور اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ درسی کتب کسی قیمت پر بھی دلچسپ نہ ہونے پائیں۔
تاہم اب مجھے علم ہے کہ انتہائی دلچسپ اور معیاری سائنس لکھنے والے مصنفین کی بڑی تعداد موجود ہے جن میں ٹموتھی فیرس، رچرڈ فورٹی، رچرچرڈ فین مین جیسے نام سرِ فہرست ہیں۔ تاہم بدقسمتی سے ان کی لکھی ہوئی ایک بھی درسی کتاب میں نے نہیں دیکھی۔ میری تمام تر درسی کتب ہمیشہ مرد مصنف کی لکھی ہوتی تھیں جو یہ سمجھتے تھے کہ دنیا کی مشکل سے مشکل بات بھی مساوات میمیں لکھنے سے آسانی ہو جائے گی اور کبھی یہ نہ سوچتے کہ باب کے آخر پر لکھے گئے سوالات کیسے ان بچوں کے ذہن کو پراگندہ کریں گے۔ جوں جوں میں بڑا ہوتا گیا، مجھے یقین آتا گیا کہ سائنس انتہائی خشک مضمون ہے۔ تاہم مجھے گمان تھا کہ سائنس کو ایسا ہونا نہیں چاہئے۔ بہت عرصے تک میرا یہی حال رہا۔
طویل عرصے بعد، اب سے کوئی چار یا پانچ سال قبل بحرالکاہل عبور کرتے ہوئے لمبی پرواز کے دوران چاندنی میں چمکتے سمندر کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ خیال آیا کہ مجھے اپنے اس سیارے کی الف ب بھی نہیں معلوم، جبکہ یہ واحد سیارہ ہے جہاں میں رہتا ہوں۔ مثلاً مجھے علم نہیں تھا کہ سمندر تو نمکین ہیں لیکن عظیم جھیلیں کیوں میٹھے پانی سے بنی ہیں؟ مجھے یہ بھی علم نہیں تھا کہ آیا وقت کے ساتھ ساتھ سمندر مزید نمکین ہو رہے ہیں یا نہیں اور اس سے ہمارے مستقبل پر کوئی فرق پڑے گا یا نہیں (آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ 1970 کے اواخر تک زیادہ تر سائنس دانوں کو بھی یہ باتیں معلوم نہیں تھیں، لیکن انہوں نے اس بارے خاموشی اختیار کیے رکھی)؟
سمندر میں نمک کی مقدار میری لاعلمی کی ایک انتہائی ادنیٰ سی مثال تھی۔ مجھے نہ تو پروٹان کا علم تھا اور نہ ہی پروٹین کا، کوارک اور کواسر کا فرق بھی مجھے نہیں معلوم تھا اور نہ ہی یہ جانتا تھا کہ کھائی کی دیوار پر موجود پتھر کا رنگ دیکھ کر ارضیات دان کیسے اس کی عمر کے بارے بتا سکتے ہیں۔ مجھے کچھ بھی تو معلوم نہیں تھا۔ تاہم مجھ پر ایک جنون سا طاری ہو گیا کہ آخر سائنس دان یہ سب کیسے جان لیتے ہیں اور یہ کہ مجھے بھی یہ سب جاننا ہے۔ مجھے کبھی یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ سائنس دان کیسے نت نئی دریافتیں کر لیتے ہیں۔ کوئی کیسے جان سکتا ہے کہ زمین کا وزن کتنا ہے، چٹاننیں کتنی پرانی ہیں یا زمین کے مرکزے میں کیا ہے؟ کائنات کا آغاز کیسے ہوا اور اس وقت کیسی دکھائی دیتی ہوگی؟ ایٹم کے اندر کیا ہو رہا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف تو سائنس دان تقریباً ہر بات جانتے ہیں تو دوسری طرف انہیں نہ تو زلزلے کے آنے کا پیشگی علم ہوتا ہے اور نہ ہی ہفتے بعد کے موسم کے بارے درست پیشین گوئی کر سکتے ہیں۔
اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی زندگی کا ایک حصہ ان باتوں کو جاننے کے لیے صرف صرف کروں گا۔ یہ عرصہ تین سال نکلا۔ اس دوران میں نے لگاتار کتب اور سائنسی رسائل پڑھے اور بے شمار ماہرین سے بظاہر انتہائی احمقانہ سوالات پوچھے جن کے جوابات ہمیشہ انہوں نے سنجیدگی اور خندہ پیشانی سے دیئے۔ میرا مقصد سائنس کی خیرہ کن کامیابیوں کے بارے عام زبان میں جاننا تھا۔
یہی میرا خیال اور میرا مقصد تھا جو اب اس کتاب کی شکل میں آپ کے سامنے ہے۔ خیر، ہم نے بہت کچھ سیکھنا اور ہمارے پاس ساڑھے چھ لاکھ سے بھی کم گھنٹے بچے ہیں۔ آئیے، شروع کرتے ہیں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں