نئے طریقے کی مدد سے حیاتی ایندھن کا بہتر عملی استعمال
حیاتی ایندھن کو نتھارنے کے ایک طریقے کی مدد سے اسے عام ڈیزل انجن والی گاڑیوں میں عمل انگیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یہ بات طے ہے کہ پودوں سے بننے والا ایندھن رکازی ایندھن کے مقابلے میں زیادہ بہتر ماحول دوست ہے۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ اپنی سالماتی ترکیب کی وجہ سے اس ایندھنی ایجاد کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ حیاتی اور رکازی ایندھن کے کیمیائی فرق کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں مختلف درجہ حرارت پر ابلتے ہیں، اس لئے حیاتی ایندھن کو جلانے کے لئے مخصوص انجن بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ حیاتی ایندھن کے وسیع استعمال کے لئے یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہو سکتی ہے۔ روایتی انجن کو معیاری ڈیزل انجن میں استعمال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کی سالماتی زنجیر 95 فیصد تک طویل ہوتی ہے، یعنی اس کو ایک مخصوص درجہ حرارت پر جلنا ہوتا ہے۔ سائنس دانوں اور انجینیروں پر رکازی ایندھن کے لئے پہلے سے موجود نظام اور مستعمل تیکنیک کا استعمال کرتے ہوئے اس کا متبادل نظام بنانے کے لئے دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔
جرمنی کے سائنس دانوں نے حال ہی میں پودوں کے کیمیائی مادوں کو برتنے کے لئے ایک نئی تیکنیک ایجاد کی ہے جس کی مدد سے وہ حیاتی ایندھن بنتا ہے جو یورپی کمیٹی برائے تعین معیار کی اس کسوٹی پر پورا اترتا ہے جو یورپ کے اندر تجارتی ڈیزل کو بیچنے کے لئے درکار ہے۔ اس عمل میں عمل انگیز کا استعمال ہوتا ہے۔ عمل انگیز استعمال کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ حیاتی ایندھن کو کسی بھی دوسرے طریقے کے مقابلے میں کم توانائی کا استعمال کرتے ہوئے کم درجہ حرارت پر پراسیس جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کم ایندھن بالا نشین یعنی پیداواری لاگت میں کمی ہوتی ہے۔
نتھارنے کے اس طریقے کی بدولت حیاتی ایندھن عام کار کے انجن میں عمل انگیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے استعمال ہو سکتا ہے۔
حیاتی ایندھن کی پیداوار
حیاتی ایندھن کی پیداوار کافی نئی تیکنیک ہے اور اس کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ ہم رکازی ایندھن سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائڈ میں کمی کرنا چاہتے ہیں۔ اس عمل میں خوردنی یا جانوروں کے تیل کو مختصر زنجیر والے الکوحل – جیسا کہ میتھانول یا ایتھانول - میں ملایا جاتا ہے۔ تیل کو عام طور پر پام یا سویا بین جیسی فصلوں سے حاصل کیا جاتا ہے، اور آج کل تو زیادہ تر حیاتی ایندھن کو صنعتی خوراک پیدا کرنے والے کارخانوں کی ضمنی پیداوار سے حاصل کیا جاتا ہے۔ حیاتی ایندھن میں کاربن نہیں ہوتا، یہ قابل تحلیل، اور زہر سے پاک ہوتا ہے، یعنی اگر یہ حادثاتی طور پر بہہ بھی جائے تو ماحول کو نسبتاً کم نقصان پہنچاتا ہے۔
حیاتی ایندھن کی پیداوار کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے وسیع استعمال میں اب بھی بہت سے رکاوٹیں موجود ہیں جن کو عبور کرنا ابھی باقی ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں