ستم ظریفی کی بات تو یہ ہے کہ کائنات کے گرم بگ بینگ کے نمونے کی کامیابی نے ماہرین فلکیات کو عارضی طور پر کئی دہائیوں تک یہ خیال ان کے دماغ میں ڈال کر چپ کرا دیا کہ کائنات میں زیادہ تر مادّے سے روشن ستارے اور کہکشائیں بنی ہیں، سرخ منتقلی-فاصلے کے تعلق کی دریافت بہت زیادہ عرصے پہلے کی نہیں ہے جس نے بتایا کہ کائنات میں اس سے کہیں زیادہ مادّہ ہے جتنا ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں۔ 1930ء کے عشرے کی ابتداء میں ولندیزی فلکیات دان جان اورٹ ان رہنماؤں میں سے ایک تھا جس نے ملکی وے کہکشاں کی ماہیت کو نظر آنے والے ستاروں کی حرکت سے اخذ کیا۔ یہ تقریباً وہ وقت تھا جب ان پیمائشوں نے حتمی طور پر بتایا کہ ملکی وے کا ہر ستارہ بعینہ اسی طرح جیسے سیارے سورج کے گرد مدار میں چکر لگاتے ہیں کسی ایسے مرکز کے گرد گھوم رہا ہے جو سورج سے کافی دور ہے۔
ہمارا نظام شمسی اس چکر دار نظام سے دو تہائی دور کہکشانی مضافات میں واقع ہے۔ ہمارے پڑوس میں قریبی ستاروں کی حرکت کو کچھ تفصیل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ بالکل کسی ایک سطح مستوی پر حرکت نہیں کرتے جب کہکشاں کے مرکز کا چکر لگاتے ہیں تو یہ اوپر نیچے لہراتے ہیں، یعنی کہکشاں کے اصل سطح مستوی سے تھوڑا سا اوپر اور تھوڑا سا نیچے کی طرف حرکت کرتے ہیں۔ اس بلندی پر جس پر ایک ستارے ایک مخصوص سمتی رفتار سے سطح مستوی سے نکل کر جا سکتا ہے اس سے پہلے کہ وہ سطح مستوی پر موجود تمام مادّے کی قوت ثقل کی وجہ سے واپس اسی جگہ پر آجائے اس کا انحصار بلاشبہ قرص کی کل کمیت کا پڑوسی ستاروں پر ہوتا ہے۔ سطح مستوی میں جس قدر زیادہ کمیت ہوگی اتنا ہی زیادہ انفرادی ستارہ سطح کے ساتھ کشش ثقل کی وجہ سے بندھا ہوا ہوگا۔ اور ملکی وے کی سطح مستوی کے آس پاس ستاروں کی تقسیم کے مطالعے سے اورٹ نے بتایا کہ سورج کے پڑوس میں کم از کم تین گنا زیادہ مادّہ اس سے ہوگا جو ہم روشن ستاروں کی روشنی میں دیکھ سکتے ہیں۔
بلاشبہ وہ کسی انفرادی ستارے کو سطح مستوی کے اوپر نیچا ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس طرح کی تبدیلیوں کے لئے ہزار یا دسیوں لاکھوں برس درکار ہوتے ہیں۔ تاہم ستاروں کی مجموعی تقسیم سطح مستوی کے مرکز سے اوپر اور نیچے کے فاصلے پر نسبتی تعداد کا تعین کیا جا سکتا تھا اور اس کا موازنہ مداری حرکیات کے قوانین سے اخذ کردہ تقسیم سے کیا جا سکتا تھا۔ یہ تعداد ستاروں کی حرکت میں قوت ثقل سے پڑنے والی رکاوٹ کی ایک قابل اعتماد تصویر دیتی ہے۔ اس طرح کی تحقیق بتاتی ہے کہ ستارے جگہ پر اس سے کہیں زیادہ مادّے سے بندھے ہوئے ہیں جنھیں ہم انہی روشن ستاروں ہی کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ 1930ء کے عشرے سے ہمارے سورج کے آس پاس ستاروں جتنی کمیت کی شناخت ان ستاروں کے درمیان پھیلے ہوئے ٹھنڈے گیس و دھول کے بادلوں کی صورت میں کی جا چکی تھی، تاہم ان کو ملا کر بھی یہ صرف وہ دو تہائی کمیت کا حصّہ بناتے تھے جو کہکشانی کے مقامی حرکیات کو بیان کرنے کے لئے درکار تھی۔
کمیت اور روشنی
اس طرح کے غیر مرئی تاریک مادّے کی پیمائش اس اصطلاح میں کی جا سکتی ہے جس کو کمیت-و-روشنی کی نسبت یا ایم/ایل کہتے ہیں۔ اس کو سورج کے لئے 1 کہا گیا ہے - ایک شمسی کمیت کے جتنا مادّہ ستارے کی صورت میں ایک شمسی روشنی کی چمک کو پیدا کرتا ہے۔ نظام شمسی کے قریب کہکشاں کے علاقے میں اورٹ کے اعداد و شمار ایم/ایل کو لگ بھگ 3 کا بتاتے ہیں۔ یہ کوئی زیادہ ڈرامائی دریافت نہیں لگتی ہے تاہم لگ بھگ اسی وقت جب اورٹ تاریک مادّے (کھوئی ہوئی کمیت) کے ثبوت کائنات میں گھر سے قریب ڈھونڈ رہا تھا اسی وقت سوئس فلکیات دان فرٹز زوئیکی جس نے اپنی پوری زندگی دور دراز کی کہکشاؤں پر تحقیق کرتے ہوئے گزار دی اس نے تاریک مادّے کے ثبوت کافی متاثر کن پیمانے پر پائے۔
زوئیکی کہکشاؤں کے جھرمٹ پر تحقیق کر رہا تھا، وہ گروہ جس میں ہماری اپنی ملکی وے کہکشاں جیسے کئی نظام خلاء میں ایک ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ ہماری کہکشاں ایک چھوٹے سے جھرمٹ جس کو مقامی گروہ کہتے ہیں اس کا حصّہ ہے؛ اس کے صرف چند گنتی کے ہی اراکین ہیں۔ کچھ جھرمٹوں میں سینکڑوں کہکشائیں ہوتی ہیں۔ فلکیات دان فرض کرتے ہیں کہ یہ جھرمٹ وہ گروہ ہیں جس میں کہکشائیں قوت ثقل کے ذریعہ ایک بندھی ہوئی ہیں، اگرچہ ایک دوسرے کے گرد چکر لگا رہی ہیں تاہم یہ شہد کی مکھیوں کی طرح خلاء میں ایک گروہ کی صورت میں حرکت کر رہی ہیں۔ تاہم جب زوئیکی نے ہر جگہ استعمال کیا جانے والا ڈوپلر منتقلی کا استعمال ایک گروہ میں موجود انفرادی کہکشاؤں کی سمتی رفتار کو ناپنے کے لئے کیا، تو اس نے دیکھا کہ کوما جھرمٹ بہت تیزی سے ان دوسروں کی بنسبت حرکت کر رہا ہے جو ایک دوسرے سے جھرمٹ میں موجود تمام کہکشاؤں کے ستاروں کی کشش سے بندھے ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے اڑنے والی کہکشاؤں کو بہت عرصے پہلے ہی جب کائنات نوجوان تھی جھرمٹ کو چھوڑ کر الگ ہو جانا چاہئے تھا۔ اور اس کو یہی چیز اس وقت ملی جب اس نے دوسرے جھرمٹوں کو دیکھا - وہ ان کہکشاؤں سے لبریز تھے جو بہت تیزی سے حرکت کر رہی تھیں اور ان کو صرف ہمیں نظر آنے والے ستاروں کی قوت ثقل باندھے ہوئے تھی۔
اس طریقہ کار میں کافی غیر یقینی صورتحال تھی۔ مثال کے طور پر کہکشاؤں کی کمیتوں کا تخمینہ یہ فرض کرکے صرف ان کی روشنی سے لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی اوسط ستارہ ہماری کہکشاں کے اوسط ستارے جتنا ہی روشن ہوگا۔ جھرمٹوں کے خود کے فاصلوں کے بارے میں کوئی حتمی بات معلوم نہیں ہے جو اس دلیل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ تاہم اس اثر کا جو پیمانہ زوئیکی کو ملا تھا اور اس کی تصدیق اس طرح کی ہر تحقیق سے ہوئی تھی یہ اس قدر بڑا تھا کہ اس نے اس طرح کی قسم کے لگائے گئے اندازے میں کسی بھی غلطی کو ہیچ کر دیا تھا۔ ثابت اصطلاح میں مادّے کی وہ مقدار جو کہکشاؤں کے جھرمٹ کو دور جانے سے روک سکے اس قدر زیادہ تھی کہ ایم/ایل نسبت کو لگ بھگ 300 گنا ہونا چاہئے تھا - کہکشاؤں کے جھرمٹ میں تاریک مادّہ تین سو گنا سے بھی روشن ستاروں کی صورت کے مقابلے میں زیادہ تھا۔ تقابل کے لئے ایک بند کائنات کے لئے درکار مادّہ کی مقدار جو خلا میں یکساں طور پر پھیلی ہوئی ہو وہ صرف اس کی تین گنا تھی۔ اگر کائنات بند تھی تو اس کا مجموعی ایم/ایل تناسب لگ بھگ 1,000 تھا۔
1930ء کے عشرے بلکہ 40، 50 اور 60 کے عشرے میں بھی اس نے ماہرین فلکیات کو کچھ زیادہ پریشانی میں نہیں ڈالا۔ پھیلتی ہوئی کائنات کی ماہیت بلکہ یہ حقیقت کہ کائنات ہماری ملکی وے کہکشاں سے کہیں زیادہ دور پھیلی ہوئی ہے نصف صدی سے کچھ تھوڑے عرصہ زیادہ پہلے کے نئے تصورات ہیں اور اندازوں کے لئے کافی جگہ تھی کہ کس طرح سے ان مشاہدات کو حل کیا جانا تھا۔ اورٹ کی دریافت کے چھوٹے پیمانے پر اس بات پر یقین رکھنا بہت مشکل لگتا ہے کہ فلکیات دانوں نے ہر قسم کے جسم میں دیکھ لیا تھا جو ملکی وے میں وجود رکھ سکتا ہو اور فلکیات دانوں کے لئے یہ تصور کرنا آسان تھا کہ ملکی وے میں کافی سارے مدہم ستارے ('بھورے بونے') یا بڑے سیاروں جیسے اجسام ('مشتری') کمیت کا تو کافی بڑا حصّہ ہو سکتے ہیں تاہم روشنی کا نہیں۔ جیسا کہ ہم دیکھیں گے کہ یہ قیاسات حالیہ دریافتوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں۔ زوئیکی کے ثبوت زیادہ الجھے ہوئے تھے تاہم ان کے برخلاف کسی ثبوت کے نہ ہونے کی وجہ سے نظری یہ اندازہ قائم کر سکتے تھے کہ جھرمٹوں کے اندر کہکشاؤں کے درمیان خلاء اس قدر گیس کے سمندر سے لبریز تھی جو کہکشاؤں کو قوت ثقل سے باندھ کر رکھنے کے لئے کافی ہے۔ ان مفروضات نے بعد سے کئے گئے مشاہدات سے میل نہیں کھایا تاہم علمبردار یہ بات نہیں جانتے تھے۔ جب اصل کائنات کو بیان کرنے والے نظریئے کی حیثیت سے بگ بینگ کی دھاک بیٹھ گئی تو کھوئے ہوئے مادّے کا معمہ فلکیات کی دنیا میں صف اول میں آگیا۔1940ء میں جو چیز بگ بینگ کی بڑی ناکامی لگ رہی تھی حقیقت میں وہ اس نے 1960ء کے عشرے سے کائنات کی ماہیت کے بارے میں وہ بصیرت فراہم کی ہے جس میں یہ فلکیات دانوں کو انتہائی درستگی کے ساتھ بتانے کے قابل ہوئی ہے کہ تمام ستاروں اور کہکشاؤں میں کس قدر مادّہ 'ہونا' چاہئے - کم از کم روزمرہ جوہری مادّے کی صورت میں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں