تاہم ایک مرتبہ جب کائنات سچے جوف کی حالت میں آ گئی تو تیز رفتار افراط رک گیا۔ توانائی بہت ہی بڑی تعداد میں ذرّات کے جوڑوں کو پیدا کرنے میں لگ گئی جو اس عمل کے درمیان لگ بھگ 10^27 کیلون کے درجہ حرارت پر دوبارہ گرم ہوئے۔ تقریباً کائنات میں موجود تمام مادّہ اور توانائی جیسا کہ ہم جانتے ہیں اس طرح کے افراط میں پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ امکانات اس لئے وقوع پذیر ہوئے کیونکہ کائنات کی ثقلی توانائی منفی ہے اور یہ کائنات کے بڑھنے کے ساتھ مزید منفی ہوتی جاتی ہے۔ جتنا ممکن ہے کہ ہم اس طریقے کے بارے میں بات کریں جس میں افراط کے دوران توانائی باقی رہی کائنات کا مادّہ توانائی بڑھتی رہی تاہم کائنات کی ثقلی توانائی زیادہ سے زیادہ منفی ہوتی رہی لہٰذا دونوں مل کر ایک دوسرے کو بالکل ٹھیک طرح سے زائل کر دیتی ہیں، گتھ کہتے ہیں - جیسا کہ گتھ اس کو یوں کہتے ہیں کہ کائنات 'حتمی مفتا' ہے۔ جب کائنات کا پھیلاؤ سست ہو کر بگ بینگ کے معیاری نمونہ کی عمومی شرح پر آگیا تو باقی کی چیزیں ویسے ہی ہوئی ہیں جیسا کہ معیاری نمونے میں ہوتی ہیں جس کو باب 7 میں بیان کیا گیا ہے۔t = 0 کے بعد 10^-30 سیکنڈ سے بھی کم عرصے میں ہی افراط ختم ہو گیا تھا تاہم اس نے افقی اور چپٹے پن کے مسئلے کو حل کر دیا تھا۔
افقی مسئلے کا حل سادہ طور پر یہ ہے کہ آج کائنات کے ایک دوسرے کے 'مخالف علاقے' تخلیق کے فوری بعد اس سے پہلے کہ وہ افراط کے ذریعہ ایک دوسرے سے پھٹ کر الگ ہوتے ' رابطے میں' تھے۔ آج ہماری دیکھی جانے والی کائنات بہت ہی ہموار ہے کیونکہ یہ پوری ایک ننھے، ننھے سے بیج جس میں تمام توانائی یکساں طور پر پھیلی ہوئی تھی اس سے پھول کر بنی ہے۔ چپٹے پن کا حاصل اس سے تھوڑا سے مشکل ہے۔ جب آپ کسی غبارے کو پھلاتے ہیں تو سطح اتنی ہی زیادہ چپٹی ہوتی ہے جتنا زیادہ غبارہ پھولتا ہے۔ یہی چیز مکان و زمان کے خم کے ساتھ مکان و زمان کے افراط کے ذریعہ پھیلنے کے ساتھ ہوا۔ جس خم کے ساتھ بھی آپ شروع کریں اس وقت تک جب مکان و زمان 10^50 کی شرح سے پھیلیں گے تو وہ ان کو چپٹی کائنات سے الگ نہیں کیا جا سکے گا۔ کوئی بھی خم دار کائنات، جس قدر ہمارے مشاہدات بتاتے ہیں، اس وقت چپٹی کائنات بن جائے گی جب کائنات کی کمیت فاصل قدر سے بہت ہی قریب اس وقت ہوگی جب وہ چکوترے کے حجم تک پہنچے گی۔
بہرحال اس کا مطلب یہ ہے کہ مکان و زمان کے کچھ علاقے حقیقت میں ایسے ہوں گے جو ہماری قابل مشاہدہ کائنات سے دور ہوں گے اور وہ اسی وقت اور اسی شرح سے نہیں پھیلے ہوں گے جس طرح سے ہمارا کائنات کا 'بلبلہ' پھولا۔ شاید ہم کسی ایک بہت ہی بڑی کثیر کائناتوں کے کسی 'مقامی' حصّے میں (پوری قابل مشاہدہ کائنات) رہتے ہیں۔ تاہم کیا یہ دوسرے علاقے قابل مشاہدہ ہو سکتے ہیں؟ یہی امکان حقیقت میں اصلی افراط کے نمونے کا مہلک ترین نقص تھا۔
خاکہ 9.4 افراط کائنات کو چپٹا کرتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ شروع ہوتے ہوئے اس کا خم کیا تھا۔ اس مثال میں کرۂ کے نصف قطر کو سیدھے طرف جاتے ہوئے ہر فریم پر تین سے ضرب دے رہے ہیں۔ کل چپٹا پن صرف 9جز ضربی پر ہی آ جاتا ہے جبکہ افراط کے منظر نامے میں کائنات 10^50 جز ضربی میں چپٹی ہوتی ہے۔
گتھ کو احساس ہو گیا تھا کہ جھوٹے جوف سے سچے جوف کی طرف عبور اٹکل پچو تمام مکان و زمان (یا اس میں سے) ہوتا ہے۔ مکان و زمان کے بہت سے افراط پذیر بلبلے ہوں گے، جن میں سے ہر ایک کی ہگس میدان کی اپنی قدر ہوگی اور ہر ایک میں تھوڑے سے مختلف قوانین طبیعیات ہوں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ تشاکل ہر بلبلے میں الگ طرح سے ٹوٹ رہی ہوگی۔ اصلی افراط کے نمونے میں کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے جس میں افراط بہت ہی خوش اسلوبی سے آگے بڑھتا اس کے بجائے افراط کے بلبلے پورے مکان و زمان سے گزرتے کیونکہ مختلف علاقے جھوٹے جوف سے مختلف طریقوں سے مفر ہوتے۔ بلبلے اس طرح کے جھرمٹ بناتے ہیں جیسے کہ مینڈک تالاب میں انڈے دیتے ہیں یا کسی اسفنج کی ساخت کی طرح اور بلبلوں کے درمیان سرحدیں بہت ہی توانا اور واضح طور پر قابل سراغ ہوتی ہیں۔ ہماری کائنات اس طرح کی نہیں لگتی۔ لہٰذا گتھ کے اصلی نمونے کی یہ پیش گوئی واضح طور پر غلط تھی۔ نمونے میں نقص تھا۔ تاہم پہلے افراط کے نمونے کی تیز رفتار پھیلاؤ کی خاصیت اس قدر اچھی لگتی تھی اور اس نے کئی مسائل کو بھی حل کیا تھا کہ کئی ماہرین تکوینیات باوجود اس کے ظاہری نقائص کے اس کو ٹھیک ماننا چاہتے تھے۔ علم کائنات کے اہم معمے کو حل کرنے کے امکان کی امید و بہم کی کوفت کو میرے لئے آندرے لنڈا نے کوزہ بند کیا جو اس وقت ماسکو کے پی این لیبدوف انسٹیٹیوٹ سے وابستہ تھے اور جنہوں نے پہلے بڑا قدم 1981ء میں اٹھایا تھا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں