لینڈا ماسکو میں 1948ء میں پیدا ہوئے اور شروع میں ڈیوڈ کرزنٹز کی رہنمائی میں لیبدوف انسٹیٹیوٹ میں تحقیق کرنے سے پہلے ماسکو یونیورسٹی سے طبیعیات کی تعلیم حاصل کی۔ اس کی دلچسپی بلند توانائی کے عبوری مرحلے کی ماہیت کو سمجھنے میں تھی جس میں ہگس میدان شامل ہوں اور گتھ کے کام کو جاننے کے لئے مشتاق تھے۔ وہ خوش تھے کہ انہوں نے جو کام کرزنٹز کے ساتھ کیا اس کی علم کائنات میں کچھ اہمیت ہو سکتی تھی تاہم جھوٹے جوف سے کس طرح سے سچے جوف کی طرف ہموار منتقلی حاصل کی جا سکتی ہے اس کو بیان کرنے میں مشکلات کی وجہ سے وہ دق ہوئے تھے۔ مارچ 1985ء میں لکھتے ہوئے لینڈی نے مجھے بتایا کہ '1981ء کے موسم گرما تک میں طبیعی طور پر بیمار تھا کیونکہ مجھے کوئی بہتری کا طریقہ نظر نہیں آ رہا تھا اور میں اس بات پر یقین نہیں کر سکتا تھا کہ خدا کائنات کی تخلیق کے کام کے اتنے سادے امکان کو غلط کر سکتا ہے۔ "تاہم 1981ء کے موسم گرما میں اس کو مسئلہ کو حل مل گیا۔ سادہ الفاظ میں جو لینڈی نے تجویز دی ہے وہ یہ کہ آتش فشاں کے اندرون کی طرح کوئی بھی گہرا کنواں نہیں ہے جس کا تعلق جھوٹے جوف سے ہے اس کے بجائے توانائی کا اتھلا سطح مرتفع ہے جو بہت ہی آہستگی کے ساتھ کناروں کی طرف ڈھلتا ہوا سچے جوف کی حالت میں جا رہا ہے۔ اس طرح کے سطح مرتفع پر جھوٹا جوف بہت ہی شرافت اور ہمواری کے ساتھ 'لڑک کر' رکاوٹ سے سرنگ بنانے کے مقامی کوانٹم کے عبور کے پورے سلسلے کے تعلق کے بغیر کسی الجھن کے سچے جوف میں بدل جائے گا۔ نتیجہ وہ کائنات ہوگی جو ہموار اور یکساں ہے ایک ایسی کائنات جو مینڈک کے انڈوں کے بجائے جیلی کی طرح بیٹھ جائے گی۔ یہ تصور 'نئے افراط کے منظرنامے' سے جانا جاتا ہے، اگرچہ اس کو سمجھنے میں کچھ وقت لگتا ہے تاہم اس نے 1980ء کے عشرے میں کافی مقبولیت حاصل کر لی تھی۔
لینڈی کے نظریئے کا نسخہ پہلے اکتوبر 1981ء میں ماسکو میں ہونے والے بین الاقوامی سیمینار میں پیش ہوا۔ کیمبرج یونیورسٹی کے اسٹیفن ہاکنگ نے لینڈی کے منظرنامے کا جواب 'تردیدی ثبوت' کے طور پر دیا۔ دوسری مرتبہ اس کو لگا کہ یہ تصور گمراہ کن ہے اور دونوں نے یہ بات اس سیمینار کے دوران کہی بھی جو اس نے فلاڈیلفیا یونیورسٹی میں دیا تھا اور اس موضوع پر اپنے ایک رفیق کے ساتھ مل کر مقالہ بھی لکھا۔ دو فلاڈیلفیا کے محققین انڈریس البرچٹ اور پال اسٹین ہارڈت بھی خود سے اسی طرح کے نتائج پر پہنچے جیسے کہ لینڈی کے تھے اور انہوں نے اپنے حسابات اپریل 1982ء میں شایع کئے، اپنے مقالے میں انہوں نے لینڈی کے خودمختار طور پر کئے گئے کام کا بھی حوالہ دیا؛ 'افراط کا مفروضہ' اس وقت قابل عزت بن گیا تھا (سائنس دان ہمیشہ کچھ یقین کرنے سے پہلے کچھ بھی دو مرتبہ بولتے ہیں) اور گتھ کے نظریئے کا لینڈی کا نسخہ افراط کے نظریوں میں اگلے چند برس تک صف اول میں بنا رہا۔
خاکہ 9.5 افراط کے دوسرے نسخے میں کائنات توانائی کے سطح مرتفع سے آہستگی کے ساتھ سچے جوف کی طرف لڑک رہی ہے۔ ایک مرتبہ پھر مساوات بتاتی ہے کہ ساتھ موجود توانائی کا اخراج مختصر عرصے کے لئے بہت تیز رفتار پوری کائنات کے پھیلاؤ کو چلا سکتا ہے۔
نئے افراط کے مفروضے کو 1982ء کے بعد سے پھوہڑپنے سے مزید چھیڑا گیا اور کوشش کی گئی کہ اس کو بہتر کرکے کائنات کے مشاہدہ کردہ خواص سے مطابقت حاصل کر لی جائے۔ مرکزی موضوع کے ایک مختلف نسخے میں جھوٹا جوف کے گرد ایک چھوٹی سی رکاوٹ ہوتی ہے، 'سطح مرتفع' کے مرکز کے گرد اور اس سے مفر ہو کر کئی بلبلے بناتی ہے جن میں سے ہر ایک اپنی زندگی سطح مرتفع پر شروع کرتا ہے اور ان میں سے ہر ایک الگ سے سچے جوف کی طرف متلون مزاجی سے لڑھکتا رہتا ہے۔ مکان و زمان میں ہر بلبلے کا اسراع پذیر پھیلاؤ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک وہ سطح مرتفع پر ہوگا اور ان میں سے ہر بلبلہ قابل مشاہدہ کائنات کے حجم کا ہو جائے گا۔ اس وقت تک جب یہ سب ہوگا، عبوری مرحلے کے شروع میں، وہ فاصلہ جو روشنی t = 0 ('افقی فاصلہ') کے بعد سے سفر کر چکی ہوگی وہ لگ بھگ 10^-24 سینٹی میٹر ہوگا۔10^50 جز ضربی کے افراط کے بعد وہی علاقہ 10^26 سینٹی میٹر پر پھیلا ہوا ہوگا یہ تمام کا تمام لگ بھگ یکساں ہموار مکان و زمان کے ذرّے سے حاصل ہوا ہوگا۔ پھیلی ہوئی کائنات نے 10 کروڑ نوری برس کے حصّے کا احاطہ کیا ہوگا۔ تاہم خلاء کے علاقے کا حجم وسیع علاقے کے اندر جو بڑھ کر ہماری آج قابل مشاہدہ کائنات بن گیا ہے وہ اس وقت بھی افراط کے اختتام تک t = 0 کے بعد 10^-30 سیکنڈ کے اندر اندر صرف 10 سینٹی میٹر جتنا ہوگا یعنی کہ چکوترے کے حجم جتنا۔ ہر وہ چیز جو ہم کبھی دیکھ سکتے ہیں یا ہمارے حواس جس کو جان سکتے ہیں وہ صرف ایک ہی افراط پذیر کائنات کے بلبلے کے اندر ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں