ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ جوہروں سے مل کر بنتا ہے۔ یہ مختلف اقسام یا عناصر- ہائیڈروجن اور آکسیجن (اکثر مل کر پانی کے سالمات بناتے ہیں) کاربن، لوہا، اور دوسروں کی صورت میں ہوتے ہیں- طبیعی جہاں اور حیات دونوں ہی بذات خود جوہروں کے آپس کے کھیل پر انحصار کرتی ہے، جو مختلف طرح سے عناصر پیدا کرنے کے لئے ملتے اور تعامل کرتے ہیں، ان عناصر کی بوقلمونی ڈی این اے جو ہمارے خلیات میں جنیاتی رموز لے کر جاتے ہیں سے لے کر سونے تک ہوتی ہے جس کی قدر اس کے خوبصورت رنگ اور کمیابی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ تاہم یہ جوہر کہاں سے آتے ہیں اور کیونکر سونا زمین پر کامیاب ہے جبکہ پانی کی فراوانی ہے؟ ان فلسفیانہ نظر آنے والے سوالات کا جواب ماہرین فلکیات کافی تفصیل سے کائنات کے بگ بینگ نمونے کو استعمال کرتے ہوئے دے سکتے ہیں۔
ہمارے وطن کا سیارہ عام پائے جانے والی کائنات سے کہیں دور کی چیز ہے۔ ان جوہروں کے لحاظ سے جس سے وہ بنے ہیں یہ تو ہمارے نظام شمسی کے بھی عام پائے جانے والے حصّے سے کہیں زیادہ الگ کی چیز ہے۔ نظام شمسی میں پایا جانے والا زیادہ تر مادّہ تو سورج میں مرتکز ہے جس کے گرد تمام سیارے گردش کر رہے ہیں۔ صرف سورج میں ہی اتنا مادّہ ہے جس سے 333,400 زمین جیسے سیارے بن سکتے ہیں، اور نظام شمسی میں پائے جانے والے تمام سیاروں کو بھی جمع کر دیا جائے تو وہ 450 زمینی کمیت سے بھی کم ہوں گے - یعنی سورج کی کمیت کے 0.15 فیصد سے بھی کم۔ سورج کائنات کی اس سے کہیں زیادہ بہتر طور پر نمائندگی کرتا ہے جیسے کہ زمین کرتی ہے، اور ہمارا سورج بنیادی طور پر اربوں دوسرے ستاروں جیسا ہی لگتا ہے جنہوں نے ملکی وے کہکشاں کو مل کر بنایا ہے، اور وہ خود بنیادی طور پر ان ارب ہا کہکشاؤں جیسی لگتی ہے جس نے ہمارے قابل مشاہدہ کائنات کے حصّے کو مل کر بنایا ہے۔ سورج اور ستاروں میں وہی عناصر اتنی فراوانی کے ساتھ نہیں ہیں جنھیں ہم زمین پر پاتے ہیں۔
یاد ہے نا کہ فلکیات دان ستاروں کی روشنی کو دیکھ کر یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ وہ کس سے مل کر بنے ہیں۔ ہر قسم کا جوہر - ہر عنصر - ستاروں سے آنے والے طیف میں اپنی مخصوص نمونے کے خط پیدا کرتا ہے، اور ان خطوط کی نسبتی طاقت ہر موجود عنصر کے تناسب کے بارے میں بتاتی ہے۔ ریڈیائی فلکیاتی تیکنیک کا استعمال کرکے یہ بھی ممکن ہے کہ ستارے کے درمیان آنے والے ان ٹھنڈے گیس کے بادلوں کی بھی اجزائے ترکیبی معلوم کی جا سکے اور مجموعی طور پر جو فلکیات دانوں کو تصویر ملی وہ ہمیشہ ایک ہی جیسی تھی چاہئے وہ کائنات میں کہیں بھی دیکھیں۔ ستاروں اور کہکشاؤں کے تمام بادلوں میں پائے جانے والے مادّے کی زیادہ تر مقدار ہائیڈروجن کی صورت میں ہے جو تمام عناصر کی سب سے سادہ صورت ہے۔ ستاروں میں مادّے کی کافی اہم مقدار (لگ بھگ 25 فیصد) ہیلیئم کی صورت میں ہے جو اس کے بعد اگلا سادہ ترین جوہر ہے، تاہم کسی بھی ستارے میں چند فیصد مادّہ بھاری عناصر جیسے کہ کاربن، آکسیجن، لوہا اور باقی کے بچے ہوئے عناصر کی ہوتی ہے جو زمین پر کافی اہم ہیں۔ کچھ ستاروں میں تمام مادّے میں موجود بھاری عناصر کی تعداد ایک فیصد کے بھی سو حصّوں سے کم ہے اور باقی یا تو ہائیڈروجن ہے یا ہیلیئم۔ اور وہ ستارے جن میں بھاری عناصر سب سے کم ملتے ہیں وہ دوسرے ثبوتوں کے علاوہ ان میں سے ہیں جو کہکشاں میں قدیم ترین ہیں۔
یہ تمام باتیں ہمیں کچھ کائنات کی ماہیت کے بارے میں گہری بات بتاتی ہیں۔ بہرکیف ہائیڈروجن سب سے سادہ ترین عنصر ہے - ہائیڈروجن کا ایک جوہر ایک پروٹون پر مشتمل ہوتا ہے جس کے ساتھ ایک اکیلا الیکٹران منسلک ہوتا ہے۔ ہیلیئم کی سب سے عام پائی جانے والی صورت دو پروٹون اور دو نیوٹران کی ہوتی ہے جو مل کر جوہر کا مرکزہ بناتے ہیں ان کے گرد دو الیکٹران موجود ہوتے ہیں۔ زیادہ تر کائنات سادے ترین جوہروں پر مشتمل ہے۔ ستارے کے اندر الیکٹران مرکزے سے الگ ہوتے ہیں اور زیادہ خود مختار طور پر وجود رکھتے ہیں تاہم ہائیڈروجن (پروٹون)اور ہیلیئم کے مرکزوں (اکثر جن کو الفا ذرّات سے جانا جاتا ہے) نے مل کر قابل مشاہدہ کائنات کی زیادہ تر کمیت کو بنایا ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں