جب فرائیڈ ہوئیل اور اس کے رفقائے کاروں نے دکھایا کہ کس طرح سے بھاری عناصر ٹھیک تناسب کے ساتھ اصل میں ستاروں کے اندر جاری رہنے والے نیوکلیائی گداختی عمل میں پیدا ہوتے ہیں تب انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بگ بینگ میں صرف ہائیڈروجن اور ہیلیئم کے مرکزے کو دوسرے بہت ہی قلیل ڈیوٹیریئم جیسے عناصر کے ساتھ ہی بننا تھا۔ جیسا کہ میں نے باب 6 میں ذکر کیا تھا کہ بگ بینگ میں ان دوسرے عناصر کی صحیح مقدار کائنات میں موجود مادّے کی کمیت یا یوں کہہ لیجئے کہ بنیادی مادّے کے ذرّات کے لئے بہت ہی حساس ہے۔ یہ اس طرح کام کرتا ہے۔ جب گیس پھیلتی ہے تو ٹھنڈی ہوتی ہے۔ جب اشعاع کی گرم گیند کا گولہ پھیلتا ہے تو وہ بھی ٹھنڈا ہوتا ہے۔ ایک نقطہ نگاہ سے آپ فوٹون کے بارے میں ایسے سوچ سکتے ہیں جیسے کہ وہ گیس کی اشعاع کے 'ذرّات' کی طرح برتاؤ کر رہے ہوں، اور پھیلتے ہوئے گیس کے بادل کے جوہروں کی طرح توانائی کو کھو رہے ہوں۔ اشعاع کے لئے بہرحال توانائی کا ضائع ہونے والا یہ اثر اشعاع کی طول موج میں تبدیلی ہے یعنی سرخ منتقلی کی طرف مناسب مقدار سے ہونا۔ توانائی جو گیما یا ایکس ریز یا اس سے زیادہ توانائی والی صورت میں موجود ہوتی ہے وہ بتدریج بالائے بنفشی اشعاع اور بصری طیف سے سرخ منتقل ہوتی ہوئی زیریں سرخ اور اس کے بعد ریڈیائی طول موج کی طرف منتقل ہو جاتی ہیں۔ اس قسم کی اشعاع کے درست درجہ حرارت کا تعلق بعینہ اسی طرح بنایا جا سکتا ہے جیسے کہ اس کی توانائی مختلف طول موج میں تقسیم ہوتی ہے اور طول موج کی قدر جس کے لئے اشعاع کی شدت عروج پر ہوتی ہے۔ یہ سیاہ جوف کی اشعاع کہلاتی ہے اور جس طرح سے اس کی توانائی طول امواج میں تقسیم ہوتی ہے وہ پلانک تقسیم کہلائی جاتی ہے، جسے کوانٹم نظریے کے بانیوں میں سے ایک میکس پلانک کے اعزاز میں نام دیا گیا ہے۔
ہم نے باب 6 میں دیکھا تھا کہ تخلیق کے چند لمحے بعد کائنات کا درجہ حرارت 10 ارب کیلون کے لگ بھگ تھا، اور آگ کے گولے نے پہلے ہی سے بنیادی ذرّات کو نیوٹران اور پروٹون کی صورت میں کس دیا تھا۔ الیکٹران بھی موجود تھے لہٰذا نوویہ کسی حد تک قابل مبادلہ تھے کیونکہ الیکٹران اور پروٹون کو نیوٹران میں بدلنے کے لئے بلند توانائی پر قوت لگائی جا سکتی ہے جبکہ نیوٹران کو اگر ایسے ہی چھوڑ دیا جائے تو وہ پروٹون اور الیکٹران میں ٹوٹ جاتا ہے۔ پہلا عمل جس میں پروٹون اور الیکٹران مل کر نیوٹران بناتے ہیں وہ کائنات کے ٹھنڈا ہونے کے ساتھ ساتھ کم ہو رہا تھا اور اس وقت تک جب درجہ حرارت گر کر ایک ارب کیلون ہو گیا اور کائنات کی عمر تقریباً تین منٹ کی تھی تو توازن اس طرف منتقل ہو گیا تھا جہاں ہر 16 نوویہ کے لئے 14 پروٹون اور 2 نیوٹران تھے۔ اس درجہ حرارت پر ایک انفرادی پروٹون اور ایک انفرادی نیوٹران مل کر ڈیوٹیریئم یا بھاری ہائیڈروجن کا ایک مرکزہ بناتے ہیں۔ جب درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے تو ڈیوٹیریئم مرکزہ بن سکتا ہے تاہم یہ فوری طور پر بلند توانائی فوٹون کے ٹکرانے سے ٹوٹ جاتا ہے، 'صرف' ایک ارب کیلون درجہ حرارت پر ہی نہ صرف ڈیوٹیریئم کا مرکزہ اپنے آپ کو قائم رکھ سکتا ہے بلکہ فوری طور پر ان جوڑوں میں بھی مل جاتا ہے جو ہیلیئم-4 کے مرکزوں کو بنانے کے لئے درکار ہوتے ہیں جس میں سے ہر ایک میں دو پروٹون اور دو نیوٹران ہوتے ہیں۔16 نوویہ میں سے 4 ہیلیئم میں چلے جاتے ہیں - 25 فیصد۔ باقی بطور پروٹون رہ جاتے ہیں تاکہ کائنات کے مزید ٹھنڈے ہونے کے ساتھ الیکٹران کو قید کرکے ہائیڈروجن کے جوہر بن جائیں۔ قدیم ترین ستاروں میں 25 فیصد ہیلیئم کا موجود ہونا پس منظر کی اشعاع کے ساتھ مل کر اس بات کا مضبوط ثبوت ہے کہ بگ بینگ کا نمونہ اس کائنات کی پیدائش کو اچھی طرح سے بیان کرتا ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔
حقیقت میں نیوکلیائی گداختی عمل اس سے تھوڑا زیادہ پیچیدہ ہیں جتنا کہ میں نے پہلے بتایا تھا۔ بجائے ڈیوٹیریئم کے دو مرکزے براہ راست مل کر ایک ہیلیئم-4 کا مرکزہ بنائیں اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ وہ اس طرح تعامل کریں کہ ہیلیئم-3 اور ایک اکیلا نیوٹران بنے۔ 'اضافی' نیوٹران ایک اور ہیلیئم-3 کے مرکزے کے ساتھ تعامل کر سکتا ہے لگ بھگ فوری طور پر تعامل کرکے ہیلیئم-4 بن سکتا ہے۔ اور یہ ابھی کہانی کا اختتام نہیں ہے کیونکہ اگرچہ وہاں پر کوئی پائیدار مرکزے نہیں ہیں جس میں یا تو پانچ یا پھر چھ نوویہ ہوں، ہیلیئم-3 اور ہیلیئم-4 کے آپس میں انضمام سے لیتھیم-7 اس سے پہلے بن سکتی ہے جب کائنات اس نقطہ پر پہنچے جہاں مزید نیوکلیائی گداخت نہیں ہو سکتی۔ بہرحال تخلیق کے 4 منٹوں کے اندر ہی یہ تمام سرگرمی ختم ہو گئی اور قدیمی عناصر کی فراوانی کا فیصلہ بھی ہو گیا۔
اگر ہم تمام پرانے ستاروں میں ان عناصر کی فراوانی کی پیمائش کر سکیں تب ہم بگ بینگ میں بننے والے آمیزے کے بارے میں جان سکیں گے۔ دوسری چیزوں کے علاوہ بننے والے ہر عنصر کے درست تناسب کا انحصار اس آگ کے گولے کی کمیت پر ہوتا ہے جس میں یہ عناصر بنے یعنی کہ اگر کائنات صرف بنیادی ذرّات سے مل کر بنی ہے تو یہ ہمیں فوری طور پر بتا دیں گے کہ آیا کائنات کھلی ہے کہ بند ہے اور اس طرح سے ہم اس کے حتمی انجام کو جان جائیں گے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں