حتمی مفتا
ایلن گتھ نے 1970ء کے عشرے میں طبیعیاتی محقق بننے کے لئے روایتی طریقہ کار ہی اختیار کیا تھا۔ وہ 1947ء میں نیو برنسوک، نیو جرسی میں پیدا ہوئے، انہوں نے ہائی لینڈ پارک، نیو جرسی کے اسکول سے تعلیم حاصل کی جہاں ان کا خاندان اس وقت منتقل ہوا تھا جب وہ تین برس کے تھے اور وہ 1964ء میں طبیعیات کی تعلیم حاصل کرنے ایم آئی ٹی میں مبتدی کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ طبیعیات میں فضیلت اور ماسٹر کی سند حاصل کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کی سند 1972ء میں حاصل کی - اور اس کے بعد وہ طبیعیات میں تحقیق کی محفوظ تعیناتی کی تلاش کے مسئلے میں الجھ گئے۔ مجھے اچھی طرح سے اس طرح کے مسائل کا اندازہ ہے جو 1970ء کے ابتدائی عشرے میں موجود تھے کیونکہ میں نے خود اپنی پی ایچ ڈی 1971ء میں مکمل کی تھی۔ بہت سارے نوجوان طبیعات میں پی ایچ ڈی کی سند لئے ہوئے گھوم رہے تھے جن میں سے کئی تو مجھ سے بہت لائق تھے اور ان میں سے چند ہی کو نوکری مل سکی تھی۔ اس سے نمٹنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ کسی ایک مختصر مدت کی ملازمت اختیار کرکے دوسری دیکھو اور امید کرو کہ ایک دن تمنا کی ہوئی مستقل سائنس دان والی طویل عرصے رہنے والی نوکری مل جائے گی۔ میں اس بھیڑ چال میں کبھی نہیں چلا تاہم میں نے تحقیق کو چھوڑ کر لکھنا شروع کر دیا؛ گتھ کیونکہ مجھ سے زیادہ مستقل مزاج (اور زیادہ لائق) کردار تھا لہٰذا پہلے اس نے کولمبیا یونیورسٹی جانے سے پہلے پرنسٹن یونیورسٹی میں کام کیا اور پھر کورنیل یونیورسٹی جہاں اس نے 1979ء کے موسم بہار میں ڈک کی چپٹے پن کے مسئلے پر بات چیت سنی۔ اکتوبر 1979ء میں اس نے ایک مرتبہ پھر جگہ بدلی، اس مرتبہ کورنیل سے رخصت لے کر لگ بھگ ایک برس اسٹنفورڈ لینر ایکسیلیریٹر سینٹر میں گزارا۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں ڈک کی بات چیت سے لگا ہوا بیج اگنا شروع ہوا اور اس کو خوراک علم کائنات اور ذرّاتی طبیعت کے بارے میں ان تمام اطلاعات سے ملنا شروع ہوئی جو گتھ نے گزرتے ماہ کے دوران جمع کی تھی۔
گتھ اس دن کو یاد کرتا ہے جب اس کے دماغ میں جمع ہونے والے تمام تصورات اچانک سے ایک ہی ساتھ نکل کر سامنے آگئے۔ وہ بروز جمعرات 6 دسمبر 1979ء کا دن تھا اور یہ تصور اس وقت عود کر آنا شروع ہوا جب ہارورڈ سے آئے ہوئے سڈنی کولیمن سے بات چیت میں وقت گزرا جس میں انہوں نے تازہ ترین خیالات کے بارے میں اظہار رائے کیا تھا۔ شام تک گتھ کو اندازہ ہو گیا کہ اس کے دماغ میں کوئی چیز بن رہی ہے۔ رات کے کھانے کا بعد گھر پر اس نے اپنی کتاب کو اٹھا لیا اور دماغ میں چلنے والے تصورات کو ریاضی کی صورت دینے کی کوشش شروع کردی۔ وہ رات دیر تک - اپنی شریک حیات کے سونے کے بعد بھی کافی دیر تک- کام کرتا رہا اور اپنی کاپی کے صفحات پر صاف ستھری احتیاط سے کئے گئے حسابات سے بھرتا رہا۔ جب میں اس کتاب پر تحقیق کر رہا تھا گتھ نے مجھے اپنی اس کاپی اور بعد کی کاپی سے کافی سارے صفحات کی نقول فراہم کی۔
دسمبر 1979ء کو شروع ہونے والے دور کے اختتام تک جو 7 دسمبر تک بیچ رات کے پہر کے طویل عرصے تک جاری رہا، ایک مختصر پانچ سطروں کا خلاصہ صفحے کے اوپر موجود تھا، جس کے گرد احتیاط کے ساتھ دو لکیروں سے ایک ڈبہ بنایا گیا تھا اور اس کی شہ سرخی شاندار احساس سے لگائی گئی تھی۔ اس میں یہ لکھا ہوا تھا 'اس طرح کی فوق ٹھنڈ بیان کر سکتی ہے کہ کیونکر آج کائنات ناقابل تصور حد تک چپٹی ہے - لہٰذا باب ڈک نے آئن سٹائن کے دونوں میں اپنے لیکچرز پر جس نپے تلے تناقض کا ذکر کیا تھا اس کو حل کرتی ہے۔' گتھ نے بہت ہی ابتدائی کائنات کو بیان کرنے کی بنیاد کو تلاش کرلیا تھا جو اب افراط کے نام سے جانی جاتی ہے - اس نے اپنے نمونے کا نام اس کی دریافت کے بعد جلد ہی دے دیا تھا۔ چند ہفتوں کے بعد جب وہ علم کائنات کا کوئی ماہر نہیں بنا تھا گتھ کو پہلی بار ایس ایل اے سی کے طبیعیات دان مارون وینسٹین سے بات چیت کے دوران معلوم ہوا کہ ماہرین تکوینیات کائنات کی بڑے پیمانے کی یکسانیت - افقی مسئلے- کی وجہ سے بھی پریشان ہیں اور اس کو احساس ہوا کہ اس کا نیا نمونہ اس کو بھی بیان کر سکتا ہے۔ اگرچہ نمونے پر متواتر کام نے بتایا کہ اس کو کم از کم ایک صورت میں نقص کا سامنا ہے، تاہم وہ آگے بڑھا اور اپنے مقالے کو اس امید پر شایع کروایا کہ کوئی دوسرا اس نقص، جس کو باب 5 میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے، کا حل نکال کر اس تصور کو آگے بڑھائے گا۔ اور اس کے افراط پر کام کرنے کی وجہ سے گتھ پہلا گشتی ایسوسی ایٹ پروفیسر بنا اور اس کے بعد جون 1981ء میں ایم آئی ٹی کے شعبہ طبیعیات میں پورا ایسوسی ایٹ پروفیسر بنا - اس جگہ پر وہ اب بھی ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں