بہرحال، ثقلی مقفل سیارہ آہستہ گھومے گا، فی مدار ایک مرتبہ، اور اس طرح سے وہ اتنا مضبوط مقناطیسی میدان بنانے کے قابل نہیں ہو گا کہ اپنے جہاں کو کرۂ فضائی کے فرسودہ ہونے سے روک سکے۔ مزید براں، سختائے ہوئی تختیاں سیارے کی نوجوانی میں محفوظ ہو سکتی ہیں۔ عمر رسیدہ سیارے جہاں سختائے ہوئی تختی بند ہو گئی ہو، وہاں بھی حفاظتی مقناطیسی میدان نہیں ہوں گے۔ سختائے ہوئی تختی مادّوں کو نچلے غلاف میں لے جائے گا (باب 4 اور 5)۔ اس کے نتیجے میں کافی درجہ حرارت پیدا ہو گا جو مائع قلب کے اندر فرق دکھا کر اس کو ایصال کی اجازت دے گا۔ فوق ارضی جہاں اس طرح سے اپنے آپ کا اپنے مرکزی ستارے کی ہواؤں کی مداخلت سے دفاع کرنا شروع کر سکتے ہیں۔ بہرحال، اگر ان کی قشر موٹے سر پوش میں جم جائے (باب 5) یا اگر وہ ثقلی طور پر اپنے مرکزی ستارے سے مقفل ہو، سیارے مقناطیسی میدان ابتداء میں ہی ناکام ہو سکتا ہے اور کرۂ فضائی مہلک طور پر ختم ہو سکتی ہے۔ ایک فوق ارض بہرحال برتر نہیں ہو سکتا۔
چنانچہ اس طرح کے سرخ ستاروں کے گرد چکر لگانے والے سیاروں پر ضیائی تالیف کے ارتقاء پر کافی تعداد میں اہم رکاوٹیں موجود ہیں۔ یہ پابندیاں ان جہانوں کے لئے منفرد ہیں جو سیارے ثقلی طور پر مقفل ہیں۔ ایک خلاف قیاس منظر نامے میں جہاں تقلیب کے عمل اور قدرتی چناؤ ان کی تلافی کے قابل نہیں ہوں گے، حیات ہو سکتا ہے کہ زیادہ ضخیم سرخ بونوں کے گرد چکر لگاتے ہوئے سیاروں پر محدود ہو۔ یہاں، نجمی قابل رہائش خطے ثقلی مقفل نصف قطر کے باہر پھیلے ہوئے ہو سکتے ہیں، اور سیارے کم از کم اپنے ستارے کی نسبت آہستہ گھومتے ہوں گے۔
یہ گلیز 581 ڈی کے لئے سچ ہو سکتا ہے، جہان چار سیاروں کے حل شعاعی سمتی رفتار کے اعداد و شمار تجویز دیتے ہیں کہ گلیز 581 ڈی کم از کم وقت کے اس حصّے میں واقع ہے جو ثقلی مقفل نصف قطر کے باہر ہے (باب 9)۔ گلیز 581 ڈی اس طرح سے آہستہ گھومتا ہے شاید اپنے 160 گھنٹے کے چکر میں دو مرتبہ۔ اس سے دن کی طوالت ہمارے چار دنوں سے تھوڑی سے کم ہے۔ بہرحال، زیادہ کثرت سے پائے جانے والے چکر لگاتے سیاروں کے لئے، ستارے کی کم اہم ثقلی مقفل ہونا یقینی ہو گا۔ ایک سیارہ جو سورج کی کمیت کے دسویں حصّے جتنے ستارے کے گرد چکر لگاتے ہوئے لگ بھگ دو زمینی دن لے وہ ثقلی مقفل ہونے سے بچ نہیں سکتا۔
لہٰذا، آسمان میں ستارے کا ایک مستقل مقام پر ہونے کی طبیعی رکاوٹیں اور کم توانائی کا ذریعہ مل کر ضیائی تالیف کو محدود کر سکتے ہیں۔ ایک بار پھر، اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ہمارے مشاہدات بتاتے ہیں کہ حیات اپنے اوپر لگائے جانے والی مشکلات سے نبرد آزما ہونے کی ماہر ہے، ان میں سے زیادہ تر مسائل وسوسے لگتے ہیں۔
نتائج
فطری انتخاب یا قدرتی چناؤ کی طاقت بڑی تعداد سے حاصل ہوتی ہے۔ ایک لیٹر پانی میں لگ بھگ سو کھرب سالمات ہوتے ہیں۔ ایک خلیے میں دس کھرب حل شدہ مادّے ہوتے ہیں، ایک ایک سمندر جہاں حیات کا ظہور ہوتا ہے اس سے دسیوں کھرب گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ دس کروڑ برسوں میں پدم ہا سالمات لگ بھگ بے پایاں امکانات کیمیائی کھوج کے دیتے ہیں۔
ایک چائے کے چمچ جتنے جراثیم میں 100 ارب خلیات تقلیب ہوتے اپنے ماحول کے مہیا کردہ جگہوں کو کھوجتے ہیں۔ فطری انتخاب یا قدرتی چناؤ کے ذریعہ ہونے والا ارتقاء اتنا ہی یقینی ہے جتنا کہ سورج کا صبح کو طلوع ہونا۔ سرخ بونی جہاں کی کیمیا ہو سکتا ہے کہ ایک مختلف جگہ کی میزبانی کرے تاہم امکانات لامتناہی ہیں۔ سب سے زیادہ امکان ارتقائی ترقی کی کیمیا کا نہیں بلکہ ہمارے تصورات کا ہے جو مشکلات کے ابھرنے میں ناکام ہوں۔
سرخ بونے زندہ جانداروں کے لئے دونوں طرح سے اپنی ابتدائی ترقی اور بعد میں ہونے والے ارتقاء کے لئے کچھ منفرد مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی پہلے نظر میں واضح نہیں ہوتے، مثال کے طور پر ان ستاروں سے پیدا ہونے والی اشعاع۔ آسمان میں مستقل روشنی کے منبع سے لگنے والی پابندی اور دستیاب اشعاع کی کم توانائی حیات کا سفر مشکل کر سکتی ہے، لیکن یہ قطعی طور پر ناممکن نہیں ہے۔ پانی میں گہرائی میں سرایت کرنے کی زیریں سرخ اشعاع کی محدود قابلیت حیات کے لئے مسئلہ ہو سکتی ہے جیسا کہ کرۂ فضائی میں موجود مرکبات کے زیریں سرخ اشعاع کے انجذاب سے ہو گی۔ ارضی حرکیات میں ناکامی سیارے کے کرۂ فضائی کے کھونے کا سبب بعینہ ایسے بن سکتا ہے جیسے کہ مریخ میں ہوا تھا، یا فوق ارض ارضیات حیاتیاتی کرہ کو ہائیڈروجن سلفائڈ کے سیلاب سے یوں بھر دے گی کہ ضیائی تالیف ممنوع ہو جائے گا۔ اس کے باوجود، اگر حیات نے زیریں سرخ اشعاع کا جواب دیا اور اس کا استعمال ضیائی تالیف کے لئے کر لیا، تو پودوں پر لگنے والی ضیائی تالیف کے لئے پابندیاں ختم ہو جائیں گی۔ زیریں سرخ اشعاع اصل میں کونوں میں چلی جائے گی اور سیارے کے ان حصّوں تک پہنچے گی جہاں بصری روشنی نہیں جا سکتی۔
چنانچہ، ہمارے نظام شمسی کے باہر پہلے زندہ جہاں کے پانے کا امکان ایک قریبی سرخ بونے کے قریب ہی ہو گا۔ اس طرح کے ستاروں کے نظام اتنے زیادہ ہیں کہ ایسا ہونا قرین قیاس ہے کہ حیات اپنا راستہ نہ پا سکے۔ یہ کیا شاندار دریافت ہو گی۔ 150 ارب یا اس سے زیادہ سرخ بونے کے ساتھ لبریز کہکشاں، اور غالباً یہ تمام ستارے نظام ہائے سیارگان کی میزبانی کرتے ہیں، حساب لگا لیں۔ ایک پدم کیمیائی امکانات 100 ارب جہانوں میں۔ آکسیجنی ضیائی تالیف پر منحصر اعلیٰ حیات کا ہونا قطعیت کے ساتھ لگتا ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں